• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
پلوامہ حملے کے بعد بھارت اپنی جارحانہ سفارت کاری کی وجہ سے کم از کم امریکہ اور برادر اسلامی ملک ایران کی پاکستان کے خلاف مذمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، یہی نہیں بلکہ اس نے پاکستان کو بھی بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کردیا اور پاکستان سے اپنی ہر بات منوالی کہ صرف دہشت گردی پر ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ انڈیا ایک طویل عرصہ سے مسئلہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈے سے نکلوانا چاہتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ پہلے دہشت گردی پر بات کی جائے اور بعد میں دوسرے مسائل کو ایجنڈے پر لایا جائے۔ مگر پاکستان نے مذاکرات کو ہمیشہ مسئلہ کشمیر سے مشروط رکھا۔ البتہ اب وزیراعظم عمران خان نے شاید بے پناہ عالمی دبائو میں آنے کے بعد وقتی طور پر ہی سہی صرف دہشت گردی پر بات چیت پر آمادگی ظاہر کردی ہے مگر اس کے باوجود بھارت نے مذاکرات سے انکار کردیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر افسوس کا اظہار بھی کردیا ہے۔ شاید بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے انڈیا سے معافی مانگے اور یہ بھی کہے گا کہ حملہ بھی اسی نے کرایا ہے؟ مگر پاکستان کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پاکستان اتنا بیوقوف بھی نہیں کہ ایسے وقت میں کوئی مہم جوئی کرتا جب سعودی ولی عہد پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آرہے تھے، کرتارپور راہداری کو کھولا جارہا تھا اور افغانستان کا مسئلہ حل کرانے کے لئے وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کرارہا تھا! ان حالات میں پاکستان کا ذرہ برابر غلطی کرنا بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ تو پھر پلوامہ میں حملہ کیوں ہوا اور کس نے کرایا؟ اس کا جواب بڑا صاف ہے کہ جب بھارت کی فوج کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کا ناحق خون بہائے گی، روزانہ چار پانچ جنازے اٹھیں گے، روزانہ پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کی آنکھوں کو نوچا جائے گا، روزانہ مائوں کی فریادیں آسمان تک جائیں گی اور روزانہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا سماں ہوگا تو اس کا ردعمل تو ہونا ہی تھا۔ پاکستان کے حساب سے پلوامہ پر حملے کا یہ وقت مناسب نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان نے اس سے پہلے بھارت میں اس طرح کی کوئی کارروائی کی ہے۔ البتہ چونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی تین ریاستوں میں انتخابات میں بری طرح شکست کھا گئی تھی اور آئندہ عام انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوچکے تھے اس لئے اس حملے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی بی جے پی کو ہوگا۔ جبکہ بھارت کی اپوزیشن بھی اس واقعے کے بعد اس حد تک دیوار کے ساتھ لگ گئی ہے کہ اس کے پاس حکومت کی سپورٹ کرنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے کیونکہ اس وقت ہندو انتہاپسندی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ جو بھی لیڈر پاکستان کے حق میں بات کرتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ اس حملے کا پاکستان کو فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے تو اس پر انتہاپسند میڈیا ٹوٹ پڑتا ہے۔ اسے پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، اس کے پتلے نذرآتش کئے جاتے ہیں، کئی ایک اعتدال پسند صحافیوں نے بھارت کا جھوٹ کھولنے کی کوشش کی مگر ان کے خلاف میڈیا میں اس قدر شرمناک مہم چلائی گئی کہ ان میں سے اکثر کو خاموش ہونا پڑا۔ دوسری طرف پاکستان کے تاخیر کے ساتھ ردعمل آنے اور سفارتی سطح پر جارحانہ انداز اختیار نہ کرنے کی وجہ سے بھی بھارت اور اس کا میڈیا بے لگام ہوگیا، اگر پاکستان فوری طور پر اپنے سفارتکاروں کو متحرک کردیتا اور کم از کم امریکی رہنمائوں کو اعتماد میں لیتا تو امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت بیان نہ آتا۔ البتہ ایران کو خود اس بات کا ادراک ہونا چاہئےتھا کہ پاکستان یہ حملہ کیسے کراسکتا ہے۔ اس نے بھارت کے دبائو میں آکر پاکستان کے خلاف بیان بھی دیا جس کا پاکستان کے عوام کو بہت افسوس ہے کیونکہ ان کے دلوں میں ایران کے لئے بہرحال ہمدردیاں موجود ہیں۔ البتہ سعودی عرب اور چین نے بھارت کو مایوس کرکے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے اپنی سفارتکاری کو مزید موثر بنانا ہوگا اور یورپ سمیت دنیا بھر میں اپنے سفارتکاروں کو سرگرم کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کا دشمن ملک کوئی بہت زیادہ ظرف رکھنے والا نہیں ہے۔ اگر اسے معلوم ہو کہ پاکستان ردعمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ وہ اس حد تک گرگیا ہے کہ اس نے پاکستان کے ٹماٹر تک بند کردیئے ہیں؟ اور پاکستان کی اشیاء پر دو سو فیصد ڈیوٹی عائد کردی ہے۔ یعنی اس نے پاکستان کے ساتھ اپنی تجارت عملی طور پر بند کردی ہے۔ وہ فوری طور پر یہی کرسکتا تھا، پاکستان کو بھی اپنے ٹماٹروں اور سبزیوں کی پیداوار بڑھا کر اسے یہ پیغام دینا چاہئے کہ وہ اپنے ٹماٹر اپنے پاس ہی رکھے!
تازہ ترین