• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرتقی میر# نے کہاتھا”ہوتاپھروں خراب جہاں میں کہاں تلک“جہاں میں کہاں تک اور کس کس عنوان خراب ہوا جاسکتاہے کوئی ہم سے سیکھے۔پاکستان میں گزشتہ17سال سے انسداد پولیو مہم جاری ہے لیکن چند برس پہلے سوات کے مولوی فضل اللہ کو پر نکتہ منکشف ہوا کہ پولیو کے قطروں کی صورت میں بچوں کو ناپاک شے اور ایسی دوا پلائی جارہی ہے جو انھیں جنسی طورپربانجھ کرسکتی ہے۔لاکھوں بچوں کی عمر بھر معذوری کا معاملہ تھا انھیں تحقیق سے کام لینا چاہئے تھا کسی لیبارٹری میں تجزیہ ممکن تھالیکن معاملہ جنوں کا ہوتو دلائل راہ تکتے رہ جاتے ہیں۔مولوی فضل اللہ کے مفروضے کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے بیشتر علاقوں اور قبائلی علاقوں میں انسدادپولیومہمات جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔پولیو ویکسینیشن کے سلسلے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ پاکستان بھر میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ امریکہ صحت عامہ سے متعلق مہمات کو جاسوسی کے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کا پولیو مہم کے ذریعہ شیخ اسامہ بن لادن کا کھوج اور امریکی حملے میں ان کی ہلاکت سے ان خدشات کو یقین کا درجہ حاصل ہوا۔یوں انسدادپولیومہم امریکہ اور امریکہ مخالف عناصر کے درمیان نفرت اور عدم اعتماد کا شکار ہوگئی ہے۔جس کی وجہ سے ایک طرف پاکستان میں لاکھوں بچوں کے پولیوجیسے موذی مرض سے متاثر ہونے کاخدشہ پیدا ہوگیا ہے تو دوسری طرف ہزاروں نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور تشدد کا سلسلہ جس وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ہماری بدنامی کا باعث بنتا رہتاہے۔پولیو ویکسین پر خواتین کے قتل کے ردعمل میں دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا زوروشور سے شروع ہوگیا ہے پھر یہ واقعہ علاقہ غیر میں نہیں کراچی میں پیش آیا ہے اس لئے عالمی برادری کی طرف سے پاکستانیوں کے سفر پر پابندی لگانے کی تجاویز بھی سامنے آسکتی ہیں۔دنیا پولیو وائرس کو پولیو فری ممالک تک پہنچنے سے روکنے کے لئے پوری تندہی سے کوشاں ہے۔انسدادپولیو مہم کیلئے درکار امن عامہ کی صورتحال ہویاکوئی اورمعاملہ پاکستان کے حکمرانوں سے مثبت امید کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔پاکستان میں سیاست بدعنوانی کی عرفیت بن کر رہ گئی ہے اسکی وجہ جمہوریت بھی ہوسکتی ہے جمہوریت اور بدعنوانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔موجودہ حکمرانوں کے پاس چونکہ وقت کم ہے پھر اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے کہ حکومت سرتاپابدعنوان نہیں ہے۔گاہے عوام کی فلاح کے لئے بھی کوئی کام کردیا جاتا ہے لیکن اس کا پروپیگنڈہ اس قدر کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔پچھلے دنوں اخبارات کے صفحہ اول پر ایک تصویر شایع ہوئی۔صدرآصف علی زرداری وزیراعلی ہاوٴس کراچی میں مفت لازمی تعلیم کے بل2012پر دستخط کر رہے ہیں۔یہ عوام کوکوئی اضافی سہولت نہیں بلکہ ایک بنیادی حق کی فراہمی ہے۔بنیادی حقوق کی فراہمی ہی کسی بھی حکومت کو سند جواز عطاکرتی ہے اسلئے دستخط معمول کے مطابق بھی ممکن تھے لیکن ایک باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا پیچھے دیوار پر ایک بڑا پوسٹرلگاتھااورصدر آصف علی زرداری کرسی پر بیٹھے بل پر دستخط فرمارہے تھے۔جناب گورنرسندھ وزیر اعلی سندھ بلاول زرداری اور دوسرے بہت سے صدر صاحب پر جھکے اس طرح خوشی اور حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت عوام کوخیر کے جواسباب فرہم کررہی ہے وہ انتہائی قلیل ہیں۔جمہوریت عوام سے بالا محض سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کے مفادات کاتحفظ کرتی ہے۔مفادپرست حکمران قانون سازی کے انتہائی طاقتور ہتھیار کواپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں،لیکن جو اندھیرپاکستان میں ہے اسکی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔پاکستان شاید دنیاکاواحد ملک ہے جہاں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے محفوظ ترین بدعنوانی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔اسکی تازہ ترین مثال وفاقی حکومت کا ٹیکس قوانین کا ترمیمی بل2012ہے جو گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں متعارف کرایا گیا۔باوثوق اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 20لاکھ38ہزارلوگ ایسے ہیں جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہے لیکن انکم ٹیکس کے محکمے کی کسی بھی فہرست میں انکا نام شامل نہیں اور وہ حکومت کو ایک بھی پیسہ ٹیکس نہیں دیتے۔ایک دوسری تفصیل کے مطابق حکومت کے پاس 38لاکھ ایسے مالداروں کی فہرست موجود ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ایک اور تحقیق کے مطابق مالی سال2011میں سینٹ اور قومی اسمبلی کے446ارکان میں سے تین سو نے انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرانا گوارا نہیں کیا۔ایک سو چار سینیٹروں میں سے صرف 49نے کچھ نہ کچھ انکم ٹیکس ادا کیا ہے جن میں سے ایک سینیٹر نے کمالِ فراخ دلی سے82روپے ادا کئے ہیں۔ایک سو اسّی ارکانِ پارلیمان کے پاس سرے سے کوئی ٹیکس نمبر ہی نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ان سب لوگوں کا شدت سے محاسبہ کیا جائے ا لیکن حکومت نے اپنی مدت مکمل کرنے کے قریب پہنچ کر ان ٹیکس چوروں کومزید اربوں روپے کا فائدہ پہچانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس ایمنسٹی بل کے تحت ملک کے اندراورباہرکالے دھن اور اثاثوں کو برائے نام رقم دے کرسفید کرا یا جاسکے گایہ رعایت نہ صرف ٹیکس جمع نہ کرانے والوں کو دی جائے بلکہ اس سے وہ رجسٹرڈ ٹیکس نادہندگان بھی فائدہ اٹھاسکیں گے جنھیں نیشنل ٹیکس نمبرتوالاٹ کیا جاچکا ہے لیکن گذشتہ تین سالوں سے انھوں نے ایک بار بھی ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرا یا۔اس معاشی NROکی خوبی یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس قانون کے تحت ایک مرتبہ ٹیکس ادا کردیں گے ان سے محکمہٴ انکم ٹیکس سمیت کوئی دوسرا تفتیشی ادارہ ان کی مال ودولت کے بارے میں تحقیقات نہیں کرسکتا۔ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو ماضی میں بھی باربارمراعات دینے کا تجربہ کیا جاچکا ہے لیکن ایک مرتبہ بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔حکومت یہ بات جانتی ہے۔لیکن اس ترمیمی بل سے حکمرانوں کویہ فائدہ ہوگاکہ موجودہ جمہوری عہد میں انھوں نے لوٹ مار کرکے جو دولت جمع کی ہے وہ محفوظ ہو جائے گی اور دوسری جانب انھیں اپنی انتخابی مہم کے لئے ٹیکس چوروں اور لوٹ مار کرنے والوں سے بڑی بڑی رقوم بھی حاصل ہو جائیں گی۔ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اس کی پرواء کس کو ہے۔
تازہ ترین