• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا ، روس ، چین ، برطانیہ اور فرانس کے سیٹلائٹس نے لاہور اور سیالکوٹ میں سیکٹر میں بھارتی فوج کی نقل وحرکت کی تصویریں اپنے اپنے ممالک کو بھیج دی ہیں ۔جنگ کے امکانات زیادہ نہیں مگراس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا ۔

افواج پاکستان کے ترجمان جنرل آصف غفورنے کہا ہے کہ ہمارا ردعمل حیران کن ہوگایعنی پاک فوج بھی حملے کے امکان کو مسترد نہیں کررہی مگر میرے نزدیک فوری طور پر جنگ کاکوئی خطرہ نہیں ہے۔

بھارت کو پاکستان سرحدوں پر اپنی فوجیں لانے میں دو سے تین مہینے درکار ہیں ۔جنگ شروع کرنے سے پہلےمورچے تعمیر کرنے پڑتے ہیں، مختلف سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگیں نصب کرنا ہوتی ہیں ۔

چالیس پچاس ارب روپیہ فوری طور پر فوج کو متحرک کرنے پر خرچ کرنا پڑتا ہے ۔یہ کوئی پرانے زمانے جنگ نہیں کہ تلواریں نکال کر ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے ۔پھر انڈیا پاکستان کی اٹیمی ٹیکنالوجی سے بہت بھی خوف زدہ ہے ۔اسے معلوم ہے کہ پاکستان کے پاس فٹ بال کے سائز کے ایٹمی بم ہیں جو ایک محدود حصے میں تباہی پھیلانے پر قادر ہیں ۔

انہی کی وجہ سے بھارت نے اپنے کچھ علاقوں کےلوگوں کو اٹیمی حملے سے بچائو کی تربیت بھی دی ۔بھارت پاکستان کی فوجی قوت سے پوری طرح واقف ہے ۔جانتا ہے جوابی ردعمل واقعی حیران کن ہوسکتا ہے ۔

فوری طورپر حملہ کا فیصلہ نریندر مودی کی سیاسی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔اگر چہ وہ ہندو انتہا پسند ذہنیت کا حامل ایک وزیر اعظم ہے مگر جانتا ہے کہ جنگ کی صورت میں تمام دنیا اس کے خلاف ہوجائے گی ۔خاص طور امریکہ اور یورپ نے جو سرمایہ کاری بھارت میں کر رکھی اسے شدید نقصان پہنچے گا ۔

اس لئے وہ ممالک اسے کسی صورت میں حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ جاپان اس جنگ کا سب سے بڑا مخالف ہے کیونکہ ایٹمی تباہی سے گزر چکا ہے اور نہیں چاہتا کہ پھر دنیا میں کوئی ایٹمی جنگ ہو ۔چین اور عرب ممالک بھی اس جنگ کے سخت مخالف ہیں ۔کیونکہ انہوں نے جو پاکستان کو ایک تجارتی حب بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس میں ان کے اربوں ڈالر لگ چکے ہیں ۔پھر یہ چین اور عرب ممالک پاکستان کے دوست ممالک ہیں انہیں مجبوراً اس جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا ۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ چین جنگ کی وجہ سےحالات خراب ہوتے دیکھ کر خود بھی بھارت پر حملہ کردےجنگ کی صورت میں بھارت میں اسی سال مئی میں ہونے والے انتخابات ملتوی ہوجائیں گے ۔اس بات پر نریندر مودی کی پارٹی کے سوا شاید ہی اور پارٹی تیار ہو ۔سو نریندرمودی کوجنگ کی اجازت اپوزیشن سے کسی طور پر نہیں مل سکتی ۔

تمام سیاسی پارٹیاں پاکستان پر حملہ کرنے کی سخت مخالف ہیں اور سمجھ رہی ہیں کہ مودی اپنے شکست کو دیکھتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کےبہانےتراش رہا ہے ۔

یہ جنگ بھی انہی میں سے ایک بہانہ ہے ۔یورپ اور امریکہ میں جو بھارتی اور پاکستانی رہتے ہیں اُن کے وہاں کی حکومتوں پر گہر ے اثرات ہیں وہ بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان اور بھارت جنگ کریں اور تباہ ہوجائیں ۔

یقینا وہ اپنی حکومتوں پر دبائو ڈالیں گے کہ اس جنگ کو ہر حال میں رکوایا جائے ۔بھارتی سرمایہ کار اس جنگ کے حق میں نہیں ہو سکتے کیونکہ جنگ میں ان کا بزنس برباد ہوجائے گا ۔

سو جنگ کا امکان بہت کم ہے مگر یہ ہو سکتا ہے کہ بھارت پاکستان کے کسی حساس مقام پر حملہ کرے تو اس میں پاکستان بھی یقینا ً فوری طور پر جوابی کاروائی کرے گا جو بھارت کےلئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گی ۔بھارت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہمیشہ ملوث رہا ہے ۔یہ بات بھی یقینی ہے کہ وہ پھر کوشش کرے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دی جائے ۔

بھارت یہ دہشت گرد افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان بھجواتا رہا ہے ۔ اب تقریباً اسی فیصد پاک افغان باڈر پر باڑ لگ چکی ہے ۔

انشاللہ جلدی مکمل ہوجائے گی اس کے بعد افغانستان سے دہشت گرد آسانی سے پاکستان نہیں داخل ہو سکیں گے ۔سرحدی علاقوں پر فائرنگ سلسلہ تو خیر ایک عرصہ سے بھارت نے شروع کر رکھا ہے اس میں یقیناً تھوڑا بہت اضافہ ہوگاجواباً پاکستان بھی کچھ کمی نہیں کرتا ۔پھر بھارت کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان پر عمران خان کی حکومت ہے ایک بہادر آدمی پاکستان کا وزیر اعظم ہے ۔

وہ بھارت کی گیدڑبھبھکیوں میں آنے والا نہیں ۔وہ ان حکمرانوں میں جو جنگ کے دنوں میں اگلے مورچوں کا معائنہ کیا کرتے ہیں ۔بہر حال میرا تجزیہ یہی ہے کہ نریندرمودی جنگ نہیں کرے گا مگر جنگی صورت حال پیدا کئے رکھے گا مئی کے مہینے تک کہ اسے پاکستان مخالف ووٹ مل سکیں۔

تازہ ترین