• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ گزشتہ برس نومبرکے مہینے کی بات ہے۔ پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ میں فوج داری مقدمات کی سماعت جاری تھی۔ اس دوران اس وقت کے سپریم کورٹ کے سب سے سینئیرجج اور آج کے چیف جسٹس، جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاتھا کہ اگر جج انصاف نہیں دے سکتا تو اسے منصف کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ گواہ سچ نہیں بولتے، پنجاب کی ماتحت عدلیہ تقریباً ہر مقدمے میں پھانسی کی سزا سناتی ہے۔ جھوٹی گواہی پر سزائیں دینے والے ججز کا احتساب ہوگا اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو جیل بھیجیں گے۔اس وقت انہوں نے فوج داری نظامِ عدل میں اصلاحات کا عندیہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ بہت جلد جھوٹے گواہ جیلوں میں ہوں گے۔ دو تین کو عمر قید کی سزا دی تو نظام درست ہو جائے گا۔ جھوٹی گواہی پر سزائیں دینے والے ججز کا بھی احتساب ہوگا۔اس موقعے پر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک انگریز جج کا ذکر کیا تھاجس نے قریب المرگ مضروب کی کذب بیانی پر اظہارِتعجب کیا تھا۔اس جج نے پنجاب سے متعلق ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ دنیا کے ہر کونے میں مرنے والا شخص سچ بولتا ہے،لیکن پنجاب میں مرنے والا جھوٹ بول کر دو تین اورافراد کو پھنسا جاتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھاکہ ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان بغیر پڑھے فیصلے لکھتے ہیں۔ اگر ماتحت عدلیہ نے یہی کچھ کرنا ہے تو پھر انہیں بند کر دیں۔

اس وقت جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ان ریمارکس کوزندگی کے مختلف شعبوں،بالخصوص قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نےبہت خوش آئند قراردیا تھااور یہ امید ظاہر کی تھی کہ جب محترم جسٹس صاحب اعلی ترین عدلیہ کے سربراہ بنیں گے تو اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گے۔اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے اس سمت میں سفر جاری رکھا۔رواں برس چوبیس جنوری کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک خاتون سے زیادتی کے مقدمے کی سماعت کی۔اس موقعے پر عدالت نے متاثرہ خاتون کے والد کی جھوٹی گواہی پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ کیوں نہ آپ کو جھوٹی گواہی دینے پر عمر قید کی سزا سنا دیں۔یادرہے کہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں نام زد ملزم کوآٹھ برس بعد بری کر د یا تھا ۔ اس موقعے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ کیس کے مرکزی گواہ اورمدعی نے جھوٹی گواہی دی، جھوٹی گواہی پرملزم کوسزائے موت ہو سکتی تھی۔ منصف کا کام یہ نہیں کہ خود کو بچاتے ہوئے دوسروں کو سزا دے۔ جج کا کام انصاف کرناہے۔جوانصاف نہیں کرسکتےوہ گھرچلے جائیں۔ہائی کورٹ بہت بڑی عدالت ہوتی ہے۔ جب تک ان جھوٹے گواہوں سے نہیں نمٹیں گے، انصاف نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ہائی کورٹ نے شواہد کونظر اندازکیا۔، عدالت کاکام تفتیش کرنانہیں۔ تفتیشی افسرکوپتاہوتا ہےکہ کون سچا،کون جھوٹاگواہ ہے۔پھرچھ فروری2019کوسپریم کورٹ نے جھو ٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کاآغاز کردیا ۔ چیف جسٹس نےجھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی محمد ارشد کو بائیس فروری کو عدالت ِ عظمی میں طلب کرلیا تھااور کہا تھا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران چوں کہ اس نے جھوٹابیان دیاتھالہذا کیوں نہ اس کے خلاف کارروائی کی جا ئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ رات کوتین بجےکاواقعہ ہے،کسی نے لائٹ نہیں دیکھی،یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کوکیوں نظرنہیں آتا۔ سی پی اوفیصل آباد جھوٹے گواہ محمدارشدکی عدالت میں حاضری یقینی بنائیں۔ٹرائل کورٹ کی ہمت ہے ۔ انہوں نے سزائےموت دی۔ کمال کیا ہائی کورٹ نےکہ عمرقیدکی سزاسنائی۔ تمام گواہان کہہ رہےتھے کہ انہوں نے فائر ہوتےنہیں دیکھا، یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کوکیوں نظرنہیں آتا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 161کے بیانات کےمطابق کوئی زخم نہیں۔جوقومی رضاکارگواہ بنایاوہ پولیس کاگواہ ہے۔تین دن بعد میڈیکل ہوتاہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔انہوںنے ریمارکس میں کہاکہ مذکورہ شخص جس طرح رضاکارانہ گواہ بنا، اسی طرح اسے رضاکارانہ جیل بھی جانا چاہیے۔ اسی گواہ کی کہنی پر خراش آئی اور اس زخم کو فائر آرم انجری کہہ دیاگیا۔ اسی رضاکار سے جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا آغازکرتے ہیں۔ ٹرائل کورٹ نے جھوٹی گواہی پر سزائے موت دی اور ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔بعد ازاں عدالتِ عظمی نے ملزم زوار کوسات سال بعد شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ یاد رہے کہ ایک قتل کے مقدمےکی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتھے کہ ماتحت عدالتوں پر افسوس ہوتا ہے۔وہ معاملات کو صحیح طریقے سے دیکھیں تو مقدمات سپریم کورٹ تک نہ آئیں۔اس سے قبل چیف جسٹس، آصف سعیدکھوسہ نےفیصلہ سناتے ہوئے اہم ریمارکس د یے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں۔ فرمان الہی ہےکہ سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں،اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیےگواہ بنو۔

اس کے بعد 13 فروری 2019 کوچیف جسٹس آف پاکستان نے جھوٹی گواہی دینے والے ایک کانسٹیبل خضر حیات کو چار مارچ کو عدالت میں طلب کرلیاتھا۔ جھوٹی گواہی کا نوٹس قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر لیا گیاتھا۔ ملزم محمد الیاس عدم شواہد کی بنیاد پر کیس سے بری ہوگیا تھا۔اس موقعے پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کو جھوٹی گواہی دے کر خراب کر دیا گیا، جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

پھر سپریم کورٹ میںپندرہ فروری کو مندرہ میں دہرے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جلد ایسا قانونی قدم اٹھائیں گےکہ جھوٹے گواہ کی پوری گواہی مسترد کردی جائے گی اور وہ ساری زندگی دوبارہ گواہی نہیں دے سکے گا۔مذکورہ مقدمے میں ملزم محمد حنیف پر الزام تھا کہ وہ مختار احمد کے گھر رشتہ لینے گیا،جہاں تنازعے پر دو افراد قتل اور ایک زخمی ہوگیا تھا۔اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد حنیف کو سزائے موت سنائی تھی،لیکن ہائی کورٹ نے شہادتوں اور بیانات میں تضاد کی بنیاد پر ملزم کو بری کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملزم کی بریت کے خلاف درخواست مستردکردی تھی۔

اس موقعے پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کسی گواہ کی گواہی کا کچھ حصہ جھوٹ ثابت ہوجائے تو ساری گواہی مسترد کر دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت کے مطابق جھوٹے گواہ کی گواہی ساری زندگی تسلیم نہیں کی جاتی، لیکن یہاں چالیس برس سے عدالتوں نے اس معاملے پر رعایت دے رکھی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فرض کر لیا گیا کہ گواہ تو جھوٹ بولتے ہی ہیں، لیکن اب سارا بوجھ عدالتوں پر ڈال دیا گیا کہ وہ سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کریں۔ اب جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

سپریم کورٹ میں بیس فروری کو جعلی گواہ کے خلاف کارروائی کے ضمن میں سماعت ہوئی۔اس موقعےپر چیف جسٹس آف پاکستان نے جھوٹی گواہی دینےپر عمر قید کی سزا دیے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہاکہ قانون کےمطابق جھوٹی گواہی پرعمرقیدکی سزادی جاتی ہے ۔ سماعت کے دوران جھوٹا گواہ، محمدارشد،عدالت میں پیش ہواجس نےاے ایس آئی مظہرحسین کےقتل کےکیس میں جھوٹی گواہی دی تھی۔بعد میںاس مقدمے میں جسٹس آصف کھوسہ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والے پولیس کے رضاکار،ارشد،کاکیس انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو بھجوادیا اور حکم دیاتھاکہ اے ٹی سی جھوٹ بولنے پر سیشن کورٹ میں شکایت دائرکرے اور سیشن کورٹ شکایات پر قانونی کارروائی عمل میں لا ئے ۔

یہاں ان مقدمات کی سماعت کا حوالہ دینے کے دو مقاصد ہیں۔اوّل، یہ بتانا کہ ہمارے نظامِ انصاف کی خرابیوں کی گونج اب ملک کی اعلی ترین عدلیہ تک جاپہنچی ہےاور خوش آئند بات یہ ہے کہ اب اس ضمن میں کارروائی کا آغاز ہوگیاہے۔دوم،یہ کہ اگر ماتحت عدالتوں کا نظام بہتر بنادیا جائے تو نہ صرف عدالتِ عالیہ و عظمی پر مقدمات کا بوجھ کم ہوسکتا ہے،عام آدمی کو جلدانصاف مل سکتا ہے،بلکہ جھوٹے مقدمات قائم کرنے اور جھوٹی گواہی دینے والوں کا بھی سدباب کیا جاسکتا ہے۔

کرائے کے گواہ دست یاب ہیں

طویل عرصے سے ملک بھر سے ایسی خبریں اور رپورٹس آتی رہتی ہیں کہ جھوٹی گواہی دینے اورجھوٹی ایف آئی آردرج کرانےپر سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے کرائے کے گواہوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یعنی انصاف فروخت ہونے لگا ہے۔ملک بھر میںایسی اطلاعات عام ہیں کہ مذکورہ جرائم پر سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے ملک کی سول اور سیشن عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے والے کرائے کے گواہوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے ۔ جھوٹی گواہی اور جعلی مچلکے دینے والے ایجنٹس عدالتوں کے باہر دندناتے پھر تےہیں۔حالاں کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 193 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے مجرم کو سات برس سے عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن قتل اورڈکیتی جیسے سنگین مقدمات میں بھی جھوٹی گواہی دینے والے سزاسے بچ جاتے ہیں۔ دفعہ 182 کے تحت جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والےمجرم کو 6 ماہ تک قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، لیکن یہ جرم کرنے والے بھی سزا سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ قذف کے قانون اور قانونِ شہادت پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہونے کی شکایات بھی عام ہیں۔ لا آف ٹارٹ میں جھوٹی ایف آئی آردرج کرانےکے ضمن میںسزا اور ہرجانے کے قانونی نکات موجود ہیں،لیکن اس کا استعمال بھی عموما دیکھنے میں نہیں آتا۔سپریم کورٹ کےایک سینئر وکیل کے مطابق چار دہائیوںسے وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں، لیکن انہوں نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ کسی کو جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا دی گئی ہو۔بہت سے دیگر وکلابھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ان کے مطابق سچے گواہوں کو با اثر ملزمان موت کے گھاٹ تک اتار دیتے ہیں۔ہر برس قتل، ڈکیتی سمیت سیکڑوںسنگین مقدمات کے ملزم گواہ نہ ہونے کے باعث باعزت بری ہوجاتے ہیںاور ایسا بھی ہواکہ درجنوں ملزموں اور گواہوں کو راستے میں یا احاطہ عدالت میں مخالف پارٹی نے قتل کر دیا۔

جھوٹے گواہ اور پولیس

بعض افراد مجبوراً ،بعض ضرورتاً جھوٹ بولتے ہیں اور بعض عادی جھوٹے ہوتے ہیں۔ پولیس کے گواہ، جنہیں اسٹاک وٹنیس یا ٹاوٹ کہا جاتاہے، معاشی مجبوریوں کی وجہ سے جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ان کا پیشہ اور ذریعہ روزگار ہے۔ ہر گواہی کے بعد انہیں معقول رقم ملتی ہے۔ یہ لوگ بڑے جہاں دیدہ‘ گرم و سرد چشیدہ ، حاضر دماغ ہوتے ہیں۔وہ اپنے سکہ بند جوابات سے وکیل کو زچ کر دیتے ہیں۔برآمدگی کے بیسیوں مقدمات میں ایک ہی گواہ پیش ہوتا رہتا ہے،لیکن ماتحت عدالتیں اس کا نوٹس نہیں لیتی ہیں۔پولیس کا استدلال یہ ہے کہ برآمدگی کے وقت کوئی آدمی ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، گواہی دینا تو دور کی بات ہے۔ اس لیے انہیں سچے واقعے کے لیے بھی جھوٹی شہادت گھڑنا پڑتی ہے۔ قتل اور اس نوع کے دیگر مقدمات کے لیے بھی جھوٹی شہادت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ قاتل یا مجرم کی کوشش ہوتی ہے کہ وقوعہ کے وقت کوئی عینی شہادت موجود نہ ہو۔ وہ چُھپ کر وارکرتا ہے اورچہرہ حتی الوسع ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں مقتول یا مضروب کے رشتے داروں کو گواہ بنانا پڑتا ہے جو جائے وقوعہ پر نہ ہونے کے باوجودعینی گواہ کہلاتے ہیں۔ وقوعہ ہونے کے بعدایف آئی آردرج کرنے میں ذرا سی بھی تاخیر استغاثے کے لیے مہلک ہوتی ہے۔لیکن پولیس بسااوقات کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد مقدمہ درج کرتی ہے۔درمیانی عرصے میں روزنامچہ روک دیتے ہیں۔ پولیس کو کافی حدتک پتا ہوتاہے کہ جرم کس شخص یا اشخاص نے کیا ہے۔چناں چہ وہ مقتول یا مضروب کے رشتے داروں کو شہہ دیتے ہیں کہ سارے خاندان کو ابتدائی رپورٹ میں نام زدکردیا جائے۔یعنی ایک پنتھ ، دو کاج۔ لواحقین سے اس ’’تعاون‘‘ کےنتیجے میں ا نہیں پیسے ملتے ہیں اور دوسری طرف ملزمان سے (ما سوا ئے اصل ملزم کے) ایک ایک کرکے سودا بازی کرتے ہیں۔ مرتاکیا نہ کرتا کے مصداق وہ خانہ نمبردو میں آنے کے لیے بھی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ عمومااس قسم کے جھوٹے مقدمات میںاصل ملزم صاف بچ نکلتے ہیں۔

ذمّے داری کس کی ہے؟

سوال یہ ہے کہ جھوٹے گواہوں اورجھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لاناکس کی ذمے داری ہے؟عدالتِ عظمی نے تو مجبورا یہ ذمے داری اپنے سر لی ہے۔یہ کام تو ریاست اور اس کے متعلقہ اداروں کا ہے۔ ہماری حکومتیں کیوں اس ضمن میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھاتیں؟ کیا انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا؟ایسا ہر گز نہیں ہے۔ آیئے ،حقیقت جاننے کے لیے صرف آٹھ ماہ پیچھے چلتے ہیں۔گزشتہ برس دو جون کو اس وقت کی وفاقی کابینہ نے حکومت کی مدت ختم ہونے کے آخری روز (کیسی عجیب بات ہے نا؟) داخلی سلامتی کے حوالے سے نئی قومی پالیسی کا اعلان کیا تھاجس کی مدت پانچ برس بتائی گئی تھی۔قوم کے ساتھ مذاق دیکھیے کہ جس روز گھر جارہے تھے اس روز پالیسی دینا یاد آیا اور وہ بھی اگلے پانچ برس کے لیے۔خیر،اس نکتے کو یہیں چھوڑ کر اصل بات کی جانب آتے ہیں۔مذکورہ پالیسی میںداخلی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے انتظامی اقدامات، انتہا پسندی کے بیانیے کے تدارک اور سماجی و معاشی محرمیوں کو دور کرنے پر توجہ دی گئی تھی ۔اس پالیسی میںدیگر نکات کے علاوہ ملک کے نظامِ قانون میں بھی اصلاحات کی تجویز دی گئی تھی۔اس کے علاوہ قانونِ شہادت، یعنی گواہی سے متعلق قانون میں بھی ترمیم کی تجویز دی گئی تھی تاکہ کسی بھی گواہ کی شہادت کو وڈیو لنک یا وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ریکار ڈ کیا جا سکے تاکہ گواہ کی شناخت کو پوشیدہ رکھا جا سکے ۔اس پالیسی میں پولیس کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کرکے تمام مقدمات کی فورینزک شہادتیں جمع کرنا بھی لازمی قرار دینے کی سفارش کی گئی تھی۔

ظاہر ہے کہ یہ پالیسی ایک ماہ یاہفتے میں تو تیار نہیں ہوئی ہوگی اور اس کی ضرورت بھی محض چند یوم میں پیش نہیں آئی ہوگی۔یعنی اس وقت کا مقتدر طبقہ پہلے سے سب کچھ جانتا تھا،لیکن صرف پالیسی دی اور وہ بھی حکومت ختم ہونے کے آخری روز،یعنی صرف کریڈٹ لینے کے لیے۔

قانونِ شہادت میں ترمیم کی ضرورت

ملک کے نظامِ قانون،بالخصوص قانونِ شہادت، یعنی گواہی سے متعلق قانون میں ترامیم کے لیے طویل عرصے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ،لیکن ریاست اس ضمن میں طویل عرصے سے غفلت کا شکار ہے۔ملک میں نافذ قانونِ شہادت ،دراصل انگریزوں کے دور میں برصغیر میں نافذ ہونے والا قانونِ شہادتِ ہندہےجس میں تھوڑی بہت ترامیم کرکے ہم نے اپنالیا تھا اور اب تک اسے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

دراصل شہادت اپنے وسیع مفہوم میں ان تمام اشیا اور نکات پر محیط ہے جو کسی دعوے یا نالش کی صداقت ظاہر کرنے یا اسے متعین کرنے کے لیے استعمال میں لائے جاتےہیں۔ شہادت دینا یا اسے پیش کرنا ان اشیا یا نکات کو استعمال کرنے کا عمل ہے جن کی سچائی کا قیاس کیا جاسکے یا جو بہ ذاتِ خود شہادت کے ذریعے ثابت شدہ ہوں تاکہ کسی دعوے کی سچائی ظاہر و ثابت ہوسکے۔ قانونِ شہادت اس ضابطے کا نام ہے جس کے توسط سے بار ثبوت کی ذمے داری نبھائی جاتی ہے۔ لیکن ہم اتنے اہم نکتے کو اب تک سمجھ نہیں پائے ہیںیا جان بوجھ کر اس معاملے کو چھیڑنا نہیں چاہتے۔حالاں کہ اس کا بہ راہِ راست تعلق ملک کے عوام سے ہے۔

ماہرینِ قانون کے مطابق ہمارے مقتدر طبقے کو بے گناہ شہریوں کے خلاف قانونِ شہادت کی خامیوں کے غلط استعمال کافوری نوٹس لینا چاہیے کیوں کہ ہزاروں بے گناہ شہری اس قانون کی آڑمیں بلیک میلرزکے حربوں کا شکار ہیں۔ خصوصاخواتین کے خلاف اس قانون کا بہت غلط استعمال ہوتا ہے جس سے انصاف کے تقاضوں پر حرف آرہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون شہادت میں اس اندازسے ترامیم کی جائیں کہ جرائم پیشہ افرادعام شہریوں،بالخصوص خواتین کوبلیک میل کرنے کے لیے اس قانون کی خامیاں استعمال نہ کرسکیں۔ ایسے قوانین دراصل آمرانہ دورمیں سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے بنائے گئےتھے اوران سے 1973 کے آئین کا حلیہ بھی بگڑگیا ہےجسے درست کیا جانا ضروری ہے۔اس قانون کی متنازع شقیں چادر اور چاردیواری کی حرمت پامال کرنے کا باعث بھی بن رہی ہیں۔بعض قانون داں تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت میاں بیوی، وکیل اور کلائنٹ ، ڈا کٹر اورمریض یا رشتے داروںکے درمیان ہونے والی گفتگو ریکارڈکرنا سرے سے غیراخلاقی قدم ہے اورکسی کوایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

تازہ ترین