• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ضمنی انتخابات: گیلانی زیادہ مقبول یا قریشی؟

صحت کارڈ کے اجرا کے لئے جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع راجن پور کا انتخاب کرکے تحریک انصاف کی حکومت نے غالباً یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اس نے اپنی انتخابی مہم میں پنجاب کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کو اہمیت دینے کے حوالے سے جو وعدے کئے تھے ان پر عملدرآمد کررہی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود اس تقریب میں شرکت کے لئے راجن پور آئے ، اگرچہ راجن پور کے حکومت مخالف حلقے یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ تقریب کے انعقاد پر حکومتی خزانے سے 10 کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں اگرچہ حکومتی ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی لیکن اتنا ضروری ہے کہ جس بڑے پیمانے پر اس تقریب کو منعقد کیا گیا اور جس طرح ضلع بھر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ،وہ اس ضلع کی تاریخ میں غیر روایتی تھے۔ عمران خان نے اپنے ہاتھوں سے صرف چند لوگوں کو ہیلتھ کارڈ دیئے جو غالباً ان کی تقسیم کا ایک علامتی اظہار تھا تاہم حکومت ایک بڑا شو کرنے میں کامیاب رہی اور وزیر اعظم عمران خان کو ایک بار پھر اپنے اسی عوامی لب و لہجہ میں خطاب کا موقع ملا۔ البتہ اس تقریب کی اہم بات یہ تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سرائیکی میں تقریر کی جسے پنڈال میں موجود افراد نے سراہا اور ان کی تقریر پر بار بار تالیاں بجتی رہیں۔ انہوں نے اس عزم کو دہرایا کہ تحریک انصاف نہ صرف پنجاب کے اس سب سے پسماندہ ضلع کو بڑے شہروں کے برابر لائے گی بلکہ جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں کو بھی اپر پنجاب کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ اب صوبے کا بجٹ تمام علاقوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ لاہور کو 94ارب روپے ملیں اور راجن پور کو صرف 4 ارب روپے، بلکہ آبادی کے لحاظ سے جس کا جتنا حق بنتا ہے اسے دیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھروزیراعلیٰ عثمان بزدار کی اس تقریب میں دل کھول کر تعریف کی اور کہا کہ ہم نے پنجاب کے پسماندہ علاقے سے وزیراعلیٰ کا انتخاب کرکے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ اب کسی علاقے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا ۔ انہوں نے عثمان بزدار کے بارے میں کہا کہ ان کا شہبازشریف سے موازنہ نہ کیا جائے کیونکہ انہیں براہ راست عوام کے مسائل کا اندازہ ہے ۔

یہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا دوسرا دورہ تھا ۔ تقریب کے بعد بھی وہ ڈیرہ غازی خان میں موجود رہے اور انہوں نے کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا اور کئی منصوبوں کی تجاویز انہیں پیش کی گئیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عثمان بزدار دوسری بار ڈی جی خان پہنچے لیکن انہوں نے جنوری میں ملتان کے مختصر دورہ پر فروری میں تفصیلی دورہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہ کیا اب ملتان میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نامعلوم وجوہات کی بناء پر جان بوجھ کر ملتان کو نظر انداز کررہے ہیں جبکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ ملتان آکر چونکہ بڑے منصوبوں کا اعلان نہیں کرسکتے خاص طور پر علیحدہ صوبہ اورعلیحدہ سیکرٹریٹ کے حوالے سے تحریک انصاف نے جو وعدے کررکھے ہیں ان کی حتمی شکل سامنے نہیں آرہی ۔

ادھر صوبائی حلقہ 218کے ضمنی انتخاب کا معاملہ دلچسپ شکل اختیارکرگیا ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کے سابق ٹکٹ ہولڈر ظفر راں نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کرکے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ اگرچہ مسلم لیگ(ن) نے اس حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اوروہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کررہی ہے تاہم ظفر راں جو مسلم لیگ(ن) میں آنے سے پہلے سید یوسف رضا گیلانی کے دست راست سمجھے جاتے تھے اور پیپلزپارٹی ضلع ملتان کے نائب صدر بھی تھے یہاں سے (ن) لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا چاہتے تھے مگر مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کردی ۔ شاید ملک ظفر راں اس بات کو بھی قبول کرلیتے مگر پیپلزپارٹی نے ملک ارشد راں کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جن کے ساتھ ملک ظفر راں کی شدید سیاسی محاذ آرائی ہے ۔ ذرائع کے مطابق ملک ظفر راں نے سید یوسف رضا گیلانی کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ ملک ارشد راں کی جگہ کسی اور امیدوار کو نامزد کریں تو وہ اسی کی حمایت کریںگے مگر چونکہ گیلانی خاندان کا کوئی فرد اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا اور ملک ارشد پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن ہیں اس لئے ظفر راں کی یہ بات نہیں مانی گئی، اسی دوران مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملک ظفر راں سے رابطہ کرکے انہیں تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دی اور ذرائع کے مطابق انہیں پارٹی میں کوئی عہدہ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا جس پر ظفر راں نے (ن) لیگ کو خیر باد کہہ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس حلقے سے تحریک انصاف نے وفات پانے والے مظہر عباس راں کے بیٹے ملک واصف راں کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ حلقہ کے سروے کے مطابق ملک ظفر راں کی تحریک انصاف میں شمولیت کے باوجود یہاں سخت مقابلہ ہوگا ۔ سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اس حلقہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے اور ملک ارشد راں کی انتخابی مہم خود چلا رہے ہیں ۔ اس طرح یہ مقابلہ دو امیدواروں کی بجائے دو مخدومین کے درمیان ہے اور اس کے لئے فتح یا شکست سے اندازہ ہوگا کہ اس حلقہ میں سید یوسف رضا گیلانی کا اثرو رسوخ ہے یا مخدوم شاہ محمود قریشی کا۔

جب سے تحریک انصاف کے کارکنوں کی گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ملتان میں ملاقات ہوئی ہے ۔ انہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ پارٹی کے عہدے داروں کو ضلعی اور ڈویژنل سطح کی ہر سرکاری میٹنگ میں بلایا جائے گا اور ان کی آراء کو اہمیت دی جائے گی ۔ اس وقت سے تحریک انصاف میں عہدے کے لئے دوڑ شدت اختیار کرگئی ہے ، ضلع ملتان کے صدر اعجاز جنجوعہ کو ڈویژنل صدر بنا دیا گیا ہے تاہم ان کے اس اختیار پر پارٹی کے مقامی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے کہ وہ ڈویژن کے تمام ضلعی عہدے داروں کا انتخاب خود کریں گے ، چونکہ اعجاز جنجوعہ پارٹی کے ایک دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے کہا یہ جارہا ہے کہ ضلعی عہدے داروں کی نمائندگی مرکز سے کی جائے ، ادھر مختلف کمیٹیوں کے لئے نامزدگیاںبھی تنائو کا شکار ہیں کیونکہ ارکان اسمبلی ان کمیٹیوں میں اپنا وفادار لانا چاہ رہے ہیں اور پارٹی عہدے داروں کی خواہش ہے کہ ان کمیٹیوں میں کارکنوں کو عہدے دار بنایا جائے اور کھینچاتانی کی وجہ سے ابھی تک یہ معاملہ تعطل کا شکار نظر آتا ہے اور ضلع کے اہم ترین محکمے جو ان کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں بغیر ان کے کام کررہے ہیں ۔یاد رہے کہ ملتان میں ترین اور شاہ گروپ کی ہر جگہ باقاعدہ ایک رسہ کشی موجود ہے، اس لئے کوئی بھی فیصلہ آسانی سے کرنا نظر نہیں آتا جس سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچ رہا ہے اور عوام اپنے چھوٹے چھوٹے کام نہ ہونے کی وجہ سے بد دلی کا شکار ہورہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین