• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ پاک فوج نے اپنی آپریشنل ترجیحات تبدیل کرتے ہوئے ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ان خطرات کے ادراک اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی بنانے کی بہت پہلے سے ضرورت تھی۔ اخبارات کی رپورٹس کے مطابق پاک فوج کی جانب سے شائع کردہ نئے فوجی نظریئے یا ”آرمی ڈاکٹرائن“ میں ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری شدت پسندوں کی کارروائیوں اور بعض تنظیموں کی طرف سے اداروں اور شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن فوج اپنی جنگی تیاریوں کے جائزے اور اسے درست سمیت میں رکھنے کے لئے شائع کرتی ہے۔ اس بار ”سبز کتاب“ (گرین بُک) میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جسے ”سب کنونشنل وارفیئر“ یا نیم روایتی جنگ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے کرداروں کا نام لئے بغیر بعض تنظیموں اور عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مغربی سرحد کے اُس پار سے ہونے والی کارروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ گرین بُک میں کہا گیا ہے کہ بعض تنظیمیں اور عناصر پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی غرض سے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ یہ حملے انتہائی درجے کی سفاک اور مہلک منصوبہ بندی کے ساتھ کئے جا رہے ہیں‘ جن سے نمٹنے کے لئے اسی درجے کی تیاریوں اور جوابی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ غیر روایتی جنگ کے باب میں ”پراکسی وار“ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں تشدد کی وجہ ”پراکسی وار“ کا عنصر بھی ہے۔ گرین بُک میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ پاکستان میں کون سے گروپس کن ملکوں کی پراکسی وار لڑ رہے ہیں لیکن یہ بات کہہ دینا بھی کافی ہے۔
پوری پاکستانی قوم یقینا اس بات پر خوشی کا اظہار کرے گی کہ پاک فوج نے پہلی مرتبہ اندرونی خطرات کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس حوالے سے اپنا نظریہ بھی تبدیل کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی نے پاکستان کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔گزشتہ تین عشروں سے پاکستان میں جاری دہشت گردی سے جتنے لوگ مارے گئے ہیں اتنے لوگ شاید روایتی جنگ میں نہ مارے جاتے‘ چاہے یہ روایتی جنگ تین عشروں سے بھی زیادہ جاری رہتی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی ایک ملک میں انسانی جانوں کا اس قدر ضیاع نہیں ہوا ہوگا‘ جس قدر پاکستان میں ہوا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اس دوران تین سے چار لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہوں گے۔ اس وقت بھی کراچی‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں اور شمالی قبائلی علاقہ جات میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ علاقوں میں پاکستانی ریاست کی کوئی عملداری ہی نہیں ہے۔ پہاڑی‘ دشوار گزار اور کم آبادی والے علاقوں میں ریاستی عملداری قائم کرنا شاید مشکل ہو‘ کراچی جیسا کاسمو پولیٹن شہر بھی کنٹرول میں نہیں ہے۔ پنجاب میں بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی دفاعی تنصیبات‘ فوجی‘ نیم فوجی اور سویلین اداروں کے اہم مراکز پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ایئر پورٹس‘ ریلوے اسٹیشنز‘ بس ٹرمینلز‘ بازار‘ مارکیٹیں‘ مساجد‘ امام بارگاہیں اور عوامی مقامات محفوظ نہیں ہیں۔ پورے ملک میں کسی کو جان و مال کا تحفظ نہیں ہے۔ صرف بے گناہ شہری ہی نہیں بلکہ فوج‘ رینجرز‘ پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے افسران اور جوان بھی ہزاروں کی تعداد میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے سے اب تک دہشت گردی میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد مارے گئے ہوں گے۔ پاکستان کے دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا کیا فائدہ؟ جہاں لاکھوں لوگ بلاجواز قتل کردیئے گئے اور دنیا پاکستان کو اس حوالے سے یاد کررہی ہو کہ یہ سرزمین دہشت گردوں اور قاتلوں کے لئے جنت ہے۔پاکستان کے وجود کے دشمن اس دھرتی میں اس قدر اپنے پنجے گاڑھ چکے ہیں کہ کوئی اُن کے خلاف بات بھی نہیں کرسکتا۔ سیاسی و جمہوری قوتیں اور سول سوسائٹی اُن تنظیموں اور عناصر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں جن کا تذکرہ گرین بُک کے نئے باب میں کیا گیا ہے اور جنہوں نے پاکستان پر غیر روایتی جنگ مسلط کررکھی ہے۔ یہ عناصر روزانہ پاکستان کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ تباہی اور بربادی اس قدر ہوچکی ہے کہ ماضی کے بکھیڑوں میں اُلجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والی تنظیموں اور عناصر کو پاکستان میں اپنے نیٹ ورکس بنانے کے لئے ماحول اور اعانت کس نے فراہم کی؟ انہیں سیاسی مقاصد کے لئے کس نے اور کیونکر استعمال کیا؟ اور انہیں سیاست کی ڈھال کس نے فراہم کی؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر قومی یکجہتی کا حصول ناممکن ہوجائے گا‘ جو ان اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان اندرونی خطرات‘ دہشت گردی کرنے اور پراکسی وار لڑنے والے عناصر کی نشاندہی کی جائے اور اس میں تمام مصلحتوں اور مفادات سے بالاتر ہوکر ان عناصر کو تنہا (ISOLATE) کیا جائے۔ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کا سوال ہے۔ ماضی میں پاکستان کی آرمی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے مابین اندرونی خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے اپروچ میں جو فرق تھا وہ ختم ہونا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ پاکستان کی دشمن بیرونی طاقتوں کو پاکستان کے اندر اپنے کارندوں کے ذریعے کارروائیاں کرانے کے لئے جس قدر سازگار ماحول میسر ہے وہ اُنہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں میسر نہیں ہوگا۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے اور پراکسی وار لڑنے والے ہی پاکستان کے تمام فیصلے کرتے ہیں اور کوئی اُنہیں چیلنج نہیں کرسکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدم تحفظ کے احساس نے عوام میں مایوسی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ لوگوں نے اپنے ذہنوں میں یہ بات بٹھا لی ہے کہ اب اُنہیں اس ملک میں بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ جن لوگوں کا بس چل رہا ہے وہ اپنے بچوں کو ملک سے باہر نکال رہے ہیں اور جو بے بس ہیں وہ کسی ناگہانی کے انتظار میں کرب ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ دہشت گردی اور بدامنی نے نہ صرف پاکستان کی ریاستی عملداری اور سیکورٹی فورسز کی افادیت کو ختم کردیا ہے بلکہ ریاست اور اُس کے اداروں پر عوام کا اعتماد بھی ختم کردیا ہے۔ پاکستان میں جمہوری اور سیاسی عمل کو روکنے کی پاکستان کو بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔
جب سے لوگوں نے یہ خبر سنی ہے کہ پاک فوج اندرونی خطرات سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کررہی ہے‘ تب سے لوگوں میں اُمید دوبارہ پیدا ہورہی ہے۔ فوجی نظریئے میں تبدیلی سے مراد عام لوگ یہ لے رہے ہیں کہ اب اُنہیں دہشت گردوں سے نجات ملے گی۔ اب وہ لاوارث نہیں ہیں۔ اس نئی ”ڈاکٹرائن“ کے بعد لوگ اپنی اس سوچ پر نظرثانی کر رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا اور اُن سے بڑی طاقت اس ملک میں کوئی نہیں ہے۔ اس وقت ہم اس عہد میں رہ رہے ہیں‘ اسے امن کا دور کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے اردگرد امن ہے۔ صرف پاکستان‘ افغانستان اور عراق جیسی ریاستوں میں بدامنی ہے‘ جہاں امریکی مفادات کی جنگ ہورہی ہے۔ پاکستان بدترین بدامنی کا شکار ہے۔ پاکستان کے اردگرد جنوبی ایشیاء‘ مشرق وسطیٰ، ایشیاء کی ریاستوں میں امن اور بھرپور زندگی ہے۔ ایران جیسے ملک میں دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو ایک دن کی سمری ٹرائیل کے بعد پھانسی دے دی جاتی ہے۔ یہاں لاکھوں افراد مارے گئے‘ ایک بھی دہشت گرد کو پھانسی نہیں ہوئی۔ روایتی جنگوں کا زمانہ اب ختم ہورہا ہے۔ دنیا کے سارے ممالک غیر روایتی جنگوں کے لئے اپنے فوجی اور مالیاتی وسائل زیادہ سے زیادہ مختص کررہے ہیں۔ داخلی امن پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بوجوہ داخلی بدامنی سے آنکھیں بند رکھی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونی خطرات کو پاک فوج نے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا اور دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا جمہوری عمل کو جاری رکھنا اس جنگ کو جیتنے کے لئے لازمی عامل ثابت ہوگا۔
تازہ ترین