تجزیہ:…حامد میر
اسلام آباد :… وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارت کے حوالے کردیا۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی نہیں آئی۔ ابھی نندن کی رہائی کے ایک ہی دن بعد لائن آف کنٹرول پر پاکستان آرمی کے دو فوجی اور چند معصوم افراد زندگیاں ہار گئے۔ کئی ممالک بشمول امریکا، سعودی عرب اور یو اے ای دونوں پڑوس ممالک کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب روس نے بھی ثالث کے طور پر اپنی خدمات پیش کردی ہیں۔ پاکستان نے روس کی ثالثی کی پیشکش قبول کرلی لیکن بھارت خاموش ہے۔ چند دفاعی ماہرین نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی کشمیر پر جنوبی ایشیا میں تیسری عالمی جنگ چھیڑ سکتی ہے۔ امریکی ماہر جارج فرائیڈمین کے مطابق تیسری عالمی جنگ 2050 کے آس پاس شروع ہوسکتی ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں۔ انہوں نے بہت سال قبل دعویٰ کیا تھا کہ تیسری عالمی جنگ ایک طرف امریکا، پولینڈ، بھارت اور چین کے درمیان اور دوسری جانب ترکی، جاپان، جرمنی اور فرانس کے درمیان شروع ہوسکتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر 2050 میں چین امریکا کی جانب ہوا تو پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اس صورت میں بھارت اور پاکستان دونوں ایک ہی جانب ہوں گے۔ آج اس منظر نامے پر یقین کرنا مشکل ہے لیکن جارج فرائیڈمین نے 2009 میں اپنی مشہور کتاب ’اگلے 100 سال‘ میں یہی لکھا تھا۔ معروف امریکی جغرافیائی سیاست کے پیش گو اور مدبر جارج فرائیڈمین نے 2011 میں ایک اور کتاب ’اگلے دس سال‘ کے عنوان سے لکھی۔ انہوں نے اس خطرے کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں جہادی قوتیں امکانی طور پر دوبارہ نمودار ہوں گی لیکن ہلکا سا امکان ہے کہ پاکستانی فوج امریکا کی مدد سے دہشت گردوں کو کچل دے گی۔ اور آخر میں انہوں نے پیش گوئی کی کہ افغان جنگ کا حل بالکل ویتنام جیسا ہوگا، بات چیت سے امن معاہدے کے ذریعے جو باغی قوتوں کو جیسے کہ یہاں پر طالبان ہیں، وہ اقتدار حاصل کرلیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست کا وجود قائم رہے گا جو بھارت کو متوازن رکھے گا، یوں امریکا کو خطوں کے اندر دیگر توازن کے نقطوں پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع مل جائے گا۔ جارج فرائیڈمین کی افغانستان کے حوالے سے پیش گوئی 2019 میں سچ ہونے جارہی ہے۔ امریکا اور طالبان نے اس سال جنوری میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا ہے اور پاکستان افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ حال ہی میں برطانوی رکن پارلیمان لارڈ قربان حسین نے مجھے لندن میں بتایا کہ افغانستان میں امن کی جانب جانے والی سڑک کشمیر سے گزرتی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ لارڈ قربان حسین نے کہا کہ پاکستان اور بھارت افغانستان میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ پاکستان طالبان کی حمایت کررہا ہے اور بھارت صدر اشرف غنی کی حمایت کر رہا ہے۔ افغانستان میں یہ پراکسی وار اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک تنازع کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اب پراکسی وار سے بھی سے زیادہ ہے۔ دو جوہری قوتوں کے درمیان یہ براہ راست تنازع بنتا جارہا ہے۔ بھارت نے 26 فروری کو پاکستان کے صوبہ کے پی کے میں بالا کوٹ کے قریب جبہ کی پہاڑیوں پر حملہ کیا اور پاکستان نے 48 گھنٹوں کے اندر لائن آف کنٹرول کے قریب بھمبر کے پاس دو بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرایا تھا۔ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی فضائیہ نے جبہ میں جیش محمد کے تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا اور وہاں سینکڑوں دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ میں نے بھارتی حملے کی اگلی ہی صبح جبہ میں گرائے گئے بم کی جگہ کا دورہ کیا۔ مجھے جبہ میں کوئی بھی تباہ شدہ عمارت نہیں ملی۔ مجھے کوئی بھی لاش نہیں ملی۔ اس علاقے میں صرف ایک ہی شخص زخمی ہوا تھا۔ اس کا نام نوران شاہ تھا۔ 62 سالہ نوران شاہ نے مجھے ایک مرا ہوا کوا دکھایا اور کہا کہ صرف یہی ایک ہلاکت ہوئی ہے۔ اس علاقے میں کوئی بھی تربیتی کیمپ نہیں تھا۔ ہاں جس جگہ بم گرایا گیا تھا اس سے ایک کلومیٹر دور ایک مذہبی اسکول (مدرسہ) تھا لیکن اس مدرسے میں تمام بچے 14 سال کی عمر سے کم کے تھے۔ یہ مدرسہ محفوظ تھا۔ نزدیکی اسپتالوں میں ایک بھی زخمی شخص نہیں لایا گیا۔ اب کئی بھارتی اخبار یہی بات کہہ رہے ہیں۔ بھارت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ بھارتی ایئرفورس نے دہشت گرد تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ آخر میں بھمبر میں بھارتی پائلٹ کو پکڑلینے کے فوری بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندرا مودی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن مودی نے ان کا فون سننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کا ہر گز مطالبہ نہیں کیا لیکن پاکستان نے کشیدگی میں کمی کیلئے اسے رہا کردیا۔ پاکستان میں ایک عام تاثر ہے کہ اس وقت امن مودی کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ وہ عام انتخابات لڑنے جارہے ہیں۔ میری عاجزانہ رائے میں مودی کو عمران خان سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں دہشت گردی پر بات چیت کے آغاز کیلئے یہ موقع استعمال کرنا چاہئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 28 فروری کو جیش محمد کے حوالے سے بھارت کی جانب سے ڈوسیئر وصول کیا۔ اگر بھارت کو بات چیت میں دلچسپی نہیں ہے تو دہلی نے اسلام آباد کو ڈوسیئر کیوں بھیجا؟ اگر بھارتی اور پاکستانی قیادت امریکی اور سعودی حکام کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں تو براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتے؟ اگر کوئی بھی بات چیت نہیں ہوگی تو عمران خان نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کیلئے تیار ہے۔ کچھ یورپی سفارتکاروں نے مجھے بتایا کہ اگر بھارت پاکستان سے دہشت گردی پر گفتگو کا آغاز کرتا ہے تو پاکستان کشمیر پر گفتگو کیلئے بھارت پر زور دینے کی کوشش کرے گا اور بھارت کو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ بات چیت کےعلاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے لیکن باضابطہ بات چیت کا آغاز بھارتی انتخابات کے بعد ہی شروع ہوسکتا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان رسمی جنگ انتخابات سے قبل شروع ہوگئی تو کیا ہوگا؟ مودی کو احساس کرنا ہی ہو گا کہ کچھ وقت کیلئے جنگ انہیں فائدہ تو پہنچا سکتی ہے لیکن یہ جنگ آخر کار پورے خطے میں امن تباہ کرڈالے گی۔ افغانستان میں سپر پاور امریکا کی ناکامیوں سے سبق سیکھو۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 17 سال تک طالبان کے خلاف اپنی افواج کو استعمال کیا۔ انہوں نے طالبان پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے یورپی یونین کا استعمال کیا لیکن وہ افغانستان میں طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ اب امریکی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ پاکستان اور طالبان میں فرق ہے۔ طالبان جوہری قوت نہیں ہیں۔ پاکستان ایک جوہری قوت ہے۔ اگر دو جوہری قوتیں لڑنا شروع کردیں تو چھوٹی جنگ بڑی جنگوں کو وجود میں لائیں گی۔ ان جنگوں سے بہت سے ’جنگ زدہ بچے‘ وجود میں آئیں گے۔ جنگ کے متاثرین اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کا انتقام لینے کیلئے متوقع طور پر اکثر تشدد کی نئی لہر کو فروغ دیتے ہیں۔ جنگ سے متاثرہ لوگوں کے جذباتی ردعمل ان کے خود کیلئے اور دیگر کیلئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ میں نے افغانستان، عراق، شام، فلسطین، چیچنیا اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں دیکھا کہ ہے کہ جنگ زدہ بچے خودکش حملہ آور بن جاتے ہیں۔ جذباتی صدمہ انہیں انتقامی بنادیتا ہے۔ وہ عادل احمد ڈار بن جاتے ہیں جنہوں نے پلوامہ میں سی آر پی ایف کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ جنگ زدہ بچے جیش محمد جیسی تنظیموں کے اثاثے بن جاتے ہیں۔ جنگی جنون سے صرف جیش محمد جیسی تنظیموں کی مدد ہوگی۔ اس تنظیم پر عرصہ قبل پاکستان میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اگر وہ پاکستان میں اب بھی کہیں موجود ہے تو مودی کو عمران خان سے براہ راست سامنا کرنا چاہئے۔ اگر وہ مقابلے کیلئے جائیں گے تو اس سے جیش محمد کو مدد ملے گی۔ جنگ سے جیش محمد کی فتح ہوگی۔ مودی جیش محمد کے ہاتھوں میں کیوں کھیل رہے ہیں؟ بدقسمتی سے بہت سے صحافی اور اینکرز بھی بھارت میں جنگ زدہ بچوں کی طرح سے برتاؤ کر رہے ہیں۔ وہ جارحیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ مودی کو ان جنگ زدہ بچوں کا یرغمال نہیں بننا چاہئے۔ اگر جنگ ہوگی تو مزید انتہا پسندی، مزید دہشت گردی، مزید اموات اور مزید تباہی، مزید عادل احمد ڈار پیدا ہوں گے۔ فاتح کوئی بھی نہیں ہوگا۔ ہم سب شکست کھا جائیں گے۔ افغان طالبان اور امریکا کو دیکھئے۔ وہ افغانستان میں لڑ رہے ہیں لیکن قطر میں ایک دوسرے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان بات چیت کیوں نہیں کرسکتے؟ ہاں میں جانتا ہوں کہ بات چیت سے پہلے کشیدگی میں کمی آنی چاہئے۔ دونوں جانب سے سیاستدان کشیدگی میں کمی کیلئے مثبت کردار ادا نہیں کرسکتے۔ کرکٹرز، گلوکار، اداکار، اور ماہرین تعلیم کو تعلقات بہتر بنانے کیلئے استعمال کریں۔ اس وقت تو ایسا مشکل ہے کیونکہ بھارت میں انتخابات بہت قریب ہیں لیکن وقت ضائع نہ کریں۔ انتخابات کے بعد چیزیں اور بھی پیچیدہ ہوسکتی ہیں۔ کم از کم ایل او سی پر تو جنگ کا اعلان کریں۔ ایل او سی کے دونوں جانب کشمیریوں کو کچھ ریلیف تو دیں۔ آنے والے چند دنوں میں اگر کشیدگی میں کوئی کمی نہیں آتی تو مجھے ڈر ہے کہ جارج فرائیڈمین کم از کم تیسری عالمی جنگ پر اپنی پیش گوئی کے حوالے سے غالط ثابت ہوسکتے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ 2050 کے آس پاس شروع نہیں ہوسکے گی۔ یہ جلد شروع ہوسکتی ہے۔ ہمیں کہنا پڑے گا کہ ہمیں جنگ نہیں امن چاہئے۔