• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوش کا دامن چھوڑنے پہ برصغیر کے عقاب تُلے بیٹھے ہیں، خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے میڈیا کا جنگجویت پسند حصہ آگ لگانے پہ تُلا ہے اور اس سطحی جنگجویت کی مات کے لیے ایک بھارتی پائلٹ کی گرفتاری اور پھر رہائی کافی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے کمال منصوبہ بندی سے گزشتہ بدھ کی رات ہی ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی بارے عالمی و بھارتی قیادت کو آگاہ کر کے، پہلے جنگی رائونڈ کو فوجی ٹکرائو کے اگلے خطرناک مرحلے تک پھلانگنے سے روک دیا۔ بھارتی وزیراعظم تو اپنے انتخابی مقاصد کے لیے جنگی ماحول کو گرمائے رکھنا چاہتے تھے، وزیراعظم عمران خان تو جنگ کی ’’آتشِ نمرود‘‘ کو ٹھنڈا کرنے پہ آمادہ تھے۔ ہوائی جنگ کے پہلے رائونڈ میں سرخرو ہونے کے باوجود، سیاسی و عسکری قیادت نے مودی کی اشتعال انگیزی کا جواب بھی دیا اور فوجی ٹکرائو کو بڑھنے سے بھی روکا۔ آیئے! ذرا غور کیجیے کہ آخر مودی کیا چاہتا تھا؟ ظاہر ہے کہ پلوامہ میں ’’فدائی حملے‘‘ میں چالیس سے زیادہ فوجیوں کی لاشیں اُٹھا کر وہ دبک کر بیٹھ رہنے والا نہ تھا بلکہ بھارت میں مچے کہرام کو اس نے اپنی جارحانہ قوم پرست جنگجو سیاست کو چمکانے کے لیے استعمال کیا۔ بقول فوجی اُستاد کلازوٹ اُس کے لیے پلوامہ ایسا فدائی تحفہ تھا جسے اُس نے ’’سیاست دوسرے ذرائع سے (جنگ سے) کرنے کا‘‘ فیصلہ کیا۔ کلازوٹ ہی کے مطابق فوجیں عسکری حکمتِ عملی ہی کو بطور مقصد اپناتی ہیں۔ اسی لیے بھارتی عسکری قیادت نے 1971کے بعد پہلی بار فضائی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے علاقے میں اندر جا کر بم برسائے۔ جواباً، پاک فضائیہ نے اخباری اطلاعات کے مطابق 24جہازوں کے ساتھ بھارت کے سرحدی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا اور بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ گرا کر اور ایک بھارتی پائلٹ قیدی بنا کر ایک وننگ ٹرافی قوم کو پیش کردی اور یہی ٹرافی بھارت کی رائے عامہ کے غضبناک حصے کو ٹھنڈا کرنے کے کام بھی آئی۔

پلوامہ کے حملے پہ بھارت کے موقف کو عالمی سطح پہ پذیرائی ملی، اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فضائی حدود کی خلاف ورزی اور خیبرپختون خوا میں بالاکوٹ کے نزدیک بم برسا کر بھارت نے ایک خطرناک مثال قائم کر دی جسے امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور فرانس نے دہشت گردی کے خلاف جائز وار قرار دے دیا۔ لیکن عالمی رائے عامہ اور عالمی برادری کے لیے دو نیوکلیئر طاقتوں میں تصادم تشویشناک صورت اختیار کر گیا اور دونوں ملکوں پہ دبائو بڑھا کر بس ہاتھ روک لو اور جنگ کی طرف مت بڑھو۔ ساتھ ہی یہ تقاضا بڑھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مزید موثر اقدامات کرے۔ چین، روس اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے چین میں ہونے والے سہ طرفہ اجلاس کے بعد جو بیان جاری ہوا وہ قابلِ غور ہے: ’’وہ جو دہشت گرد کارروائیوں کی تیاری کرتے ہیں، اس کے لیے اُکساتے ہیں یا پھر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں، کا احتساب کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔‘‘ چینی وزیر خارجہ نے اس موقع پر کہا کہ: ’’ہم (چین، روس اور بھارت) نے اتفاق کیا ہے کہ مشترکہ طور پر ہر طرح کی دہشت گردی کی بیخ کنی کی جائے اور اس کے لیے پالیسی اور عملی سطح پر تعاون کیا جائے۔ خاص طور پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کی زرخیز سرزمینوں کے خلاف‘‘۔ بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے بھارتی جارحیت کو ’’دہشت گردی کی زرخیز زمینوں‘‘ پہ حملہ قرار دیا۔ لیکن اسی موقع پر چین نے ’’دونوں دوست ملکوں‘‘ کو مشورہ دیا کہ وہ دہشت گردی کی تحقیقات میں تعاون کے لیے بات چیت کریں گے تاکہ حقائق کا تعین کیا جا سکے اور صورتِ حال کو قابو میں رکھا جا سکے اور خطے کا امن و استحکام برقرار رکھا جائے۔ اس سے ملا جلا ردّعمل ہمارے دیرینہ دوستوں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اختیار کیا۔ پاکستان میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان کا دورہ ایک اچھا موقع تھا کہ اُن سے بھارت کے ساتھ معاملات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے سفارت کاری کا کہا جاتا۔ سعودی ولی عہد نے دہلی میں وزیراعظم مودی سے اس بارے میں بات بھی کی جس کے باعث بات چیت کے آغاز کے لیے ’’ضروری شرائط‘‘ پوری کرنے کا سعودی بھارت اعلامیہ میں ذکر بھی کیا گیا۔ ان مفادات کے پیشِ نظر متحدہ عرب امارات اور سعودی ولی عہد (جو بھارت کی ایک ریفائنری میں 22 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں) ایک عرصہ سے کوشش میں تھے کہ بھارت کو او آئی سی میں بطور آبزرور شامل کیا جائے۔ اس سب سے ہمارا محکمہ خارجہ واقف تھا، لیکن پھر بھی بھارتی وزیرِ خارجہ کو OIC کے افتتاحی پلینری اجلاس میں شرکت کے دعوت نامے سے غافل رہا کہ بیچ میں پلوامہ کا واقعہ ہو گیا۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بہت زیرک سیاست دان اور تجربہ کار سفارت کار ہیں، جانے وہ کیوں شہباز شریف کی اشتعال انگیزی میں آ گئے اور اُنہوں نے ابوظہبی میں ہونے والے مسلم وزرائے خارجہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا، بہتر ہوتا وہ ذہین سیاست کار آصف زرداری کے مفید مشورے پہ کان دھرتے اور بائیکاٹ کر کے تنہائی کا راستہ نہ اختیار کرتے اورسشما سوراج کے لیے میدان خالی نہ چھوڑتے لیکن جو اعلامیہ ابوظہبی سے جاری ہوا وہ وہی تھا جو پاکستان نے تجویز کیا تھا۔

بھارتی پائلٹ کی رہائی سے کشیدگی میں کمی تو آئی ہے لیکن لائن آف کنٹرول گرم ہے اور دونوں طرف کی افواج ہائی الرٹ پر ہیں اور خدانخواستہ کوئی اور بڑا واقعہ ہو گیا تو بس پھر اللہ برصغیر کو نیوکلیئر قیامت سے بچائے۔ (پاک بھارت نیوکلیئر جنگ کی صورت میں دُنیا کی نوے فیصد آبادی ختم ہو سکتی ہے) ابھی کشیدگی کو کم کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ جنگ مخالف اور امن دوست قوتوں کو پُرزور کوششیں کرنا ہوں گی کہ پاک بھارت ’’منی جنگ‘‘ نہ ہو جو بھرپور جنگ میں بدل سکتی ہے۔ مودی کے جنگی عزائم انتخابی موسم میں آشکار ہو چکے ہیں اور اب اس پر وہاں خوب لے دے ہو رہی ہے۔ دریں اثنا پاکستان کو جہاں جنگ کو ٹالنا اور کشیدگی کو ٹھنڈا کرنا ہے وہاں دہشت گردی کے حوالے سے جاری جنگ کو فیصلہ کُن مرحلے میں لے جانا ہے۔ آوارہ یا آزاد دہشت گرد پاکستان اور بھارت کو جنگ میں دھکیل سکتے ہیں اور وہ اب کشمیریوں کی آزادی کی جنگ کے لیے بھی دہشت کی تہمت کا باعث بن گئے ہیں۔ کشمیریوں کی جمہوری جدوجہد کو اب جہادیوں کی ضرورت نہیں بلکہ وہ بھارت کی کشمیر میں چیرہ دستیوں کو جواز فراہم کرتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان، قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جہاں پاکستان کے قومی موقف کو دہرایا گیا ہے، وہیں بھارت کو پھر سے پلوامہ کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ اس سارے جنگی ماحول میں جو آوازیں امن کے لیے اُٹھ رہی ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔ جنگی پامردی کے بیانیے کے خلاف امن کی فاختائوں کی نفیری ہی غنیمت ہے۔ ہوش کے ناخن لیے رکھنے میں ہی مُکتی ہے۔ آخر کب تک برصغیر یونہی کشیدگی کی نذر رہے گا؟

تازہ ترین