• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومبر 1965ء میں جب امریکا نے ویت نام میں بڑے پیمانے پر جنگ شروع کی تو اس وقت امریکا میں سول رائٹس موومنٹ یعنی شہری حقوق کی تحریک عروج پر تھی۔ یہ تحریک افریقی نژاد امریکیوں یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ سیاہ فام باشندوں کو یکساں حقوق اور مواقع دینے کے لئے تھی۔ کیونکہ انہیں امریکا میں ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ یہ ایسی تحریک تھی، جو امریکا میں انقلاب یا کایا پلٹ کا سبب بن سکتی تھی۔ اس سے پہلے امریکا میں ہمیشہ کے لئے اقتدار پر سفید فام لوگوں اور ان کے کارندوں کی گرفت ختم ہوجاتی، جنگ ویت نام شروع ہوگئی یا کردی گئی۔ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی یا کی گئی، اس پر سول رائٹس موومنٹ کے مقبول ترین رہنما مارٹن لوتھرکنگ جونیئر نے نیویارک میںدریا کے کنارے ایک چرچ میں تقریباً تین ہزار لوگوں کے اجتماع سے تاریخی خطاب کیا، جسے ’’جنگ ویت نام کے پس پردہ اسباب‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس خطاب کا ایک ایک جملہ تاریخی حوالہ بن گیا ہے۔ مارٹن لوتھرکنگ جونیئر کا کہنا تھا کہ جنگ ویت نام شہری حقوق کی تحریک کا رخ موڑنے کی عظیم کاوش ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہری، بنیادی اور جمہوری حقوق کی تحریکوں کے پنپنے کا انحصار امن سے ہے۔ جنگیں ان تحریکوں سے توجہ ہٹانے اور انہیں غیر مؤثر بنانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ مارٹن لوتھرکنگ جونیئر کے خطاب کے ایک ایک لفظ میں وہ ابلاغ ہے، جو بڑی شاعری اور عظیم فلسفے میں ہوتا ہے۔ مارٹن لوتھر نے امریکیوں کو بتایا کہ جنگ ویت نام نہ صرف امریکی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے بلکہ یہ امریکا کے عوام کی تحریکوں کو کچلنے کا بھی حربہ ہے۔ امریکی نوجوانوں کو آٹھ ہزار میل دور ویت نام اور خطے کے دیگر ممالک میں ان شہری آزادیوں (سول لبرٹیز) کی بحالی کے لئے لڑنے بھیجا جارہا ہے، جو انہیں اپنے ملک میں حاصل نہیں ہیں۔

جنگ کے خلاف اور جنگ کے حقیقی اسباب پر مارٹن لوتھرکنگ جونیئر کے خطاب نے نہ صرف جنگ مخالف عناصر کے مؤقف کو بہترین الفاظ کا جامہ پہنایا بلکہ تاریخ میں نادر انکشاف کو بھی دنیا سے تسلیم کرالیا کہ یہ جنگ اب استبدادی، استحصالی، سامراجی اور مخصوص مفادات والی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ اگرچہ بہت پہلے جنگ مخالف اور امن پسند قوتوں نے یہ نادر انکشاف کردیا تھا لیکن مارٹن لوتھرکنگ جونیئر کے خطاب نے دنیا کو اس بات کا عادی کردیا کہ وہ ہر جنگ کے اسباب کا ادراک کریں۔

گزشتہ ماہ 26فروری 2019ء کو بھارت نے پاکستان کے خلاف جس جارحیت کا ارتکاب کیا اور زبردستی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی، اس کے اسباب کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے، اس میں تمام اسباب کا احاطہ نہیں کیا جارہا ہے۔ ایک سبب تو یہ بیان کیا جارہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپنے ملک میں مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے عوام کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے ہیں۔ ان کی مخالف سیاسی جماعت کانگریس خصوصاً کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارتی عوام میں بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری اور تنگ دستی کے باعث نریندرمودی کے خلاف نفرت بھی بڑھ رہی ہے۔ مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے اور سیاسی رجحانات کا رخ بدلنے کے لئے مودی نے جنگی جنون پیدا کیا ہے لیکن یہ ایک سبب ہے۔ دیگر بھی کئی اسباب ہیں، جن پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک اور سبب بھارت کی حکمران اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات ہیں، جو بھارت کی موجودہ سیاسی صورت حال میں خطرے میں ہیں۔ بھارتی افواج اس طرح سیاسی حکومت کے تابع نہیں ہے جس طرح ہمارے ہاں مغالطہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا سبب امریکا اور اس کے حواریوں کے اس خطے میں مفادات کو درپیش خطرات ہیں۔ چین اور روس کے عالمی کردار کی بحالی اور ان کی طرف سے پیش قدمی پاکستان کے لئے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ خود بھارت کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔ پاکستان میں اگرچہ سیاسی قوتیں کمزور ہیں، وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں، اس کے باوجود امریکا پاکستان کے اس تاریخی موقع سے خائف ہے۔ 26 فروری کو بھارت نے جارحیت کرکے نہ صرف بھارتی اسٹیبلشمنٹ بلکہ عالمی سامراجی طاقتوں کے عزائم کی تکمیل کی کوشش کی۔

اگرچہ دو جوہری طاقتوں کے مابین خطرناک جنگ کو روکنے کے لئے پاکستان کی حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کیا اور اپنا ردعمل صرف دفاع تک محدود رکھا لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جنگ کے امکانات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں جنگی جنون پیدا ہوا اور دونوں ملکوں میں عوام اپنے مسائل اور اپنے حقوق کی تحریکوں سے غافل ہوگئے۔ پاکستان میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور دیگر عالمی مالیاتی اداروںکے دبائو پر مہنگائی اور بیروزگاری کے اضافے کے باعث تحریک انصاف کی حکومت کی مقبولیت میں تیزی سے ہونے والی کمی کا عمل بھی کسی حد تک رک گیا ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ جو بات مارٹن لوتھرکنگ نے جنگ ویت نام کے زمانے میں کی تھی، وہ بات ہم آج کے ماحول میں نہیں کرسکتے۔ بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جنگ کوئی بھی ملک شروع کرے، وہ دونوں فریق ملکوں کے عوام کے حق میں نہیں ہوتی ہے۔ جنگ صرف طاقتور حلقوں کے حق میں ہوتی ہے۔ جتنا جنگی جنون پاکستان اور بھارت میں پیدا ہوا ہے، اگر یہی جنون اپنے سیاسی اور بنیادی حقوق کے لئے لوگوں میں پیدا ہوجائے تو پھر کبھی فوجوں کے درمیان جنگ نہ ہو۔ بس مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ سے بچا جاسکے۔ -column-10-03-2019

تازہ ترین