• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

عمرہ زائرین پر ٹیکس عائد کرنا

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس سے ثابت ہوا کہ اس رقم کا وصول کرنا قواعد اسلامی کی رو سے ناجائز ہے، اگر غیر مسلم سلطنت ایسی رقم مسلمانوں سے وصول کرتی ہو تو اسلامی ریاست تب بھی غیر مسلم سے وصول نہ کرے گی۔

در مختار میں ہے:

ولا نأخذ منهم شيئاً إذا لم يبلغ مالهم نصابا۔ وإن أخذوا منّا فی الأصح لأنّه ظلم ولا متابعة عليه.(حاشيۃ ابن عابدین:کتاب الزکاۃ، 2/315، ط: سعيد)

دلا ئل مذکورہ صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ ایسا ٹیکس معتمرین سے وصول کرنا اسلام کی رو سے جائز نہیں۔

باقی اگر زائرین حرمین پر ٹیکس یا اس جیسی مالی پابندی اس وجہ سے عائدکی جائے کہ بار بار جانے سے ازدحام ہوتا ہے، اور یہ رقم عائد کرنے سے بار بار آنے والوں کی روک تھام ہو سکے گی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت وقت کو مباحاتِ اصلیہ سے کسی کو روکنے کا اختیار ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں مفاد عامہ کی مصلحت ہو، لیکن جو مباحات شرعیہ ہیں، اس میں حکومت کو کسی کو منع کرنے کا اختیار نہیں،چنانچہ حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ ماہنامہ بینات میں امام ابو حامد الغزالیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

أنّ الأفعال ثلاثة أقسام، قسم بقي علىٰ الأصل فلم يرد فيه من الشرع تعرض لا بصريح الّلفظ ولا بدليل من أدلّة السّمع فينبغي أن يقال: استمر فيه ما كان ولم يتعرض له السمع فليس فيہ حكم، وقسم صرّح الشرع فيه بالتخيير وقال: إن شئتم فافعلوه وإن شئتم فاتركوه فهذا خطاب والحكم لا معنيى له إلّا الخطاب ولا سبيل إلىٰ إنكاره وقد ورد.وقسم ثالث: لم يرد فيه خطاب بالتخيير لكن دلّ دليل السّمع علىٰ أنه نفى الحرج عن فعله وتركه. (المستصفی فی علم الاصل، ۱/۶۰، دارالکتب العلمیۃ)

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ افعال مباحہ تین قسم پر ہیں:

۱) ایسے افعال جن کے متعلق شریعت نے کسی قسم کا حکم نہیں دیا، نہ ان کے کرنے کے بارے میں اور نہ کرنے کے بارے میں، ایسے افعال کو اصول فقہ کی اصطلاح میں ’’مباح الاصل‘‘ کہا جاتا ہے، اور اس حالت کو اباحت اصلیہ کہتے ہیں، مثلاً:سڑک پر اس طرف چلو یا نہ چلو، تین روز گوشت کھاؤیا نہ کھاؤ، فلاں ملک کا کپڑا پہنو یا نہ پہنو۔۲)وہ افعال جن کے بارے میں شریعت نے خود بتلا دیا کہ تم کو اختیار ہے کہ ان کو کرو یا نہ کرو، ایسے افعال کو مباح شرعی کہا جاتا ہےاور اس حالت کو ’’اباحت شرعیہ‘‘ کہتے ہیں، مثلاً: ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا حکم کہ اس کے بارے میں شریعت نے کھول کر بتلا دیا ہےکہ تمہیں اختیار ہے کہ چاہے ایک سے زائد بیویاں رکھو یا نہ رکھو۔۳)ایسے افعال جن کے کرنے یا نہ کرنے میں تو قرآن وحدیث میں صریح حکم موجود نہیں، لیکن ادلّۂ شرعیہ میں کوئی دلیل اس بات کو بتاتی ہے کہ اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اب واضح رہے کہ حکومت کو صرف پہلی قسم کے افعال میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہے، یعنی حکومت اس قسم کے قوانین بنا سکتی ہے، کہ دائیں طرف چلو، بائیں طرف نہ چلو، یا فلاں ملک کا کپڑا پہنو یا نہ پہنو، ہفتہ میں دو روز گوشت نہ کھاؤ، کیونکہ ان امور کی اباحت شریعت سے نہیں معلوم ہوتی، البتہ دوسری قسم یا تیسری قسم کے افعال میں حکومت کو پابندی لگانے کا کسی قسم کا کوئی حق نہیں، کیونکہ شریعت کے کسی امر میں تبدیلی کا حکومت کو سرے سے کوئی حق ہی نہیں، حکومت کو مباح کی دوسری اور تیسری قسم میں تبدیلی کا کوئی حق نہیں ہے۔

عمرہ ادا کرنا، بار بار عمرہ کرنا مباح اصلی نہیں، بلکہ مباح شرعی ہے بلکہ اس کی تو ترغیب ہے، جس کی وجہ سے جمہور فقہائے کرام نے اسے مستحب لکھا ہے، چناںچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فلا يكره الإكثار منها خلافا لمالك، بل يستحب علىٰ ما عليه الجمهور.(حاشیۃ ابن عابدین:کتاب الحج، 2/472، ط: سعيد)

سلف صالحین سے بھی بکثرت عمرہ کی ادائیگی ثابت ہے، جس کی وجہ سے کثرت عمرہ مستحب بمعنی ما أحبہ السلف بھی ہے، بار بار عمرہ کی ادائیگی کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بیت اللہ ہر وقت زائرین سے آباد رہتا ہے ۔ چنانچہ ابوبکر جصاص رازیؒ احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

الثاني أنه أحبّ عمارة البيت وأن يكثر زوّاره فی غيرها من الشّهور۔ (سورۃ البقرہ: 1/3۵۵، ط: دار إحياء التراث العربی)

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ بار بار عمرہ کرنا مباح شرعی ہے، لہٰذاکسی حکومت کو اس سے روکنے اور پابندی لگانے کا حق نہیں ہےاور اس پر ٹیکس لگانا بھی ناجائز اور حرام ہے اورایسا ٹیکس غیر شرعی ،ناجائز اورظالمانہ ہے۔

تازہ ترین