• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے ایک اعتراف کہ جسے کوئی اعتراف جرم بھی سمجھے وہ یہ کہ میں خواتین کے اس مارچ میں شامل تھا جو کراچی میں خواتین کے عالمی دن یعنی8مارچ کو فریئر ہال کے سبزہ زار پر منعقد ہوا اور یہ اقرار بھی کہ مجھے وہاں ہونا اچھا لگا۔ اس کا ایک جواز میری نظر میں یہ ہے کہ خواتین کی سماجی اور جمہوری آزادی کی تحریک مردوں کی شراکت کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دراصل تو یہ معاشرے کی ترقی ،آزادی اور خوشحالی کا مسئلہ ہے، سو یہ ذمہ داری صرف خواتین پر نہیں چھوڑی جا سکتی ۔یہ مثال دیکھئے کہ میڈیا کی آزادی بھی تو دراصل معاشرے کی آزادی ہے تو پھر اس آزادی کی جدوجہد میڈیا کے کارکن اکیلے کیوں کرتے ہیں؟ یہ کام تو سول سوسائٹی کا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے کہ جن کا حصول صرف ایک ذمہ دار اور آزاد میڈیا کے توسط سے ہی ممکن ہے۔ خیر، بات خواتین مارچ کی ہو رہی ہے۔اس مارچ میں چند بلکہ صرف انگلیوں پر گنے جانے والے پوسٹر ایسے تھے جن کی معنوی برہنگی نے ایک طوفان برپا کر دیاہے۔خواتین نے جو پلے کارڈ اٹھائے تھے ان پر جائز مطالبات کے ساتھ ساتھ صنفی برابری اور ازدواجی رشتوں کے حوالے سے کافی دلچسپ اور طنز آمیز فقرے بھی شامل تھے۔ میں نے تو وہاں سوچا کہ کوئی ان تمام تحریر شدہ نعروں کو اکٹھا کرے تو ایک یادگار کتاب بن جائے کہ جو معاشرتی تبدیلی کے اہم موڑ کی دستاویز ہو۔ 1968میں یورپ بلکہ خاص طور پر پیرس میں نوجوانوں نے جو بغاوت کی تھی تو دیواروں پر لکھے ہوئے ان کے نعرے عوامی ادب کا حصہ بن گئے تھے۔ ان میں بھی بدتمیزی اور نافرمانی اور سرکشی کا بے باک اظہار تھا۔ احتجاج میں اکثر جوش اور غصے کی ملاوٹ تو ہوتی ہے۔

اچھا، وہ جو چند شعلہ فشاں اور چونکا دینے والے پوسٹر تھے تو سچی بات یہ ہے کہ میں انہیں دیکھ کر حیران نہیں ہوا۔ اسی طرح میں ان پر ہونے والے شدید ردعمل سے بھی حیران نہیں ہوا۔ جو موجودہ صورتحال ہے اور اس میں سوشل میڈیا کی بے ہودگی بلکہ غلاظت کا بھی دخل ہے۔ اس میں اظہار اور مطالبوں کی سرحدیں بھی باقی نہیں رہی ہیں۔ ان چند پوسٹروں سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں اضافہ ہوا اسی لئے میں نے اپنے کالم کے لئے گزرے ہوئے ہفتے کے موضوع کا انتخاب کیا جیسا کہ میں نے کہا، جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ہونا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب کسی اختلافی مسئلے پر دونوں جانب کے انتہا پسند میدان میں اتر آئے ہوں تو مکالمہ نہیں ہوتا۔ ایسی جنگ ہوتی ہے جس میں حقائق اور عقل کا ہتھیار ناکارہ ہو جاتا ہے۔ مکالمہ صرف ایک جانب کے اعتدال پسند،دوسری صف کے اعتدال پسندوں سے کر سکتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر اس مکالمے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں ہے کہ ایک طرف کے انتہا پسند دوسری طرف کے انتہا پسندوں کو تقویت پہنچاتےہیں۔ یوں تو وہ ایک دوسرے کے لئے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ایک دوسرے کے وجود کا ضامن بن جاتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی سیاست کا میں ذکر نہیں کرنا چاہتااور ذکر نہ کرنے کا معاملہ ہے تو کتنی ہی اور باتیں ہیں کہ جن پر بات نہیں ہو سکتی۔ خواتین کی آزادی کی جدوجہد کسی مارچ اور پوسٹر کی عریانی تک محدود نہیں کی جا سکتی۔ ایک پیچیدگی یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے اس انقلاب کے بعد کہ جس کے مضمرات کو بھی ہم ابھی سمجھ نہیں پائے ہیں ہمارا تقلید پسند معاشرہ بکھرتا جا رہا ہے اور ہم تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا سے سمجھوتہ کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔

اب آپ یہ بتایئے کہ دنیا میں کتنے دوسرے ایسے معاشرے ہیں جن میں غیرت کے نام پر اتنے قتل ہوتے ہیں اور جہاں نوجوان لڑکیوں کو محبت کرنے یا اپنی پسند کی شادی کرنے کے جرم میں ان کے اپنے بھائی اور باپ بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ کاروکاری کے واقعات شاید اسی لئے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں کہ رسم و رواج کی زنجیروں میں بندھی لڑکیاں اب زیادہ تعداد میں بغاوت پر آمادہ ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر جسم میں تھرتھری پیدا ہوتی ہےکہ کراچی ایسے نام نہاد روشنیوں کے شہر میں یہ بھی ممکن ہے کہ پسند کی شادی کرنے والے ایک جوڑےکو کوئی جرگہ موت کی سزا سنائے اور اس پر نہایت وحشیانہ انداز میں عمل بھی کیا جائے۔ بار بار ہم ایسی خبریں پڑھتے ہیں اور چند واقعات تو ایسے ہیں کہ جو اس پورے معاشرے کی بےغیرتی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ آپ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ پوسٹر ہیں جو معاشرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے ہے۔ اور آپ خود فیصلہ کریں کہ اس پوسٹر پر لکھی ہوئی تحریر کتنی شائستہ یا کتنی غلیظ ہے۔

اس وقت جو گفتگو ہو رہی ہے اس کا مرکز خاص طور پر وہ خواتین ہیں جو آزادی اور خود مختاری کی دوڑ میں بہت آگے چلی گئی ہیں۔ عام حالات میں خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اور مجموعی طور پر خواتین کی حیثیت کیا ہے اس کا اتنا ذکر نہیں ہے۔ موجودہ حالات کے اپنے کچھ تقاضے ہیں لیکن یہ جدوجہد تو برسوں سے جاری ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب مجاز نے ایک نوجوان خاتون سے یہ کہا تھا کہ ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔

یہ نظم1937میں یعنی 80سال سے بھی پہلےلکھی گئی تھی اور ترقی پسند روشن خیال تحریک اب کئی منزلیں سر کر چکی ہے۔فہمیدہ ریاض کے انتقال کو ابھی چند ماہ گزرے ہیں اور ان کی شاعری نے بھی عورتوں کی آزادی کا پرچم بلند کیا۔ دنیا کی بات کرنے کا یہاں موقع نہیں، صرف یہ یاد رہے کہ آزاد مغرب میں بھی ’’می ٹو‘‘کی تحریک نے گزشتہ دو تین سالوں میں معاشرے کو تبدیل کردیا ہے۔جسے ہم پدر شاہی کہیں اس کے قلعے میں شگاف پڑ رہے ہیں۔ٹرمپ کے امریکہ میں گزشتہ سال نومبر میں ایوان نمائندگان کے انتخابات میں 102خواتین کامیاب ہوئیں کہ جو ایوان کی تقریباً ایک چوتھائی تعداد ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ان میں چند سرکش نوجوان خواتین نمایاں ہیں۔اس ایوان نےجنوری میں اپنی ٹرم کا آغازکیا۔ ہمارے لئے سب سےبڑی خبر یہ ہے کہ پہلی بار دو مسلمان خواتین نے بھی حلف اٹھایا۔ ایک فلسطینی خاتون رشیدہ طالب ہیں۔ دوسری کاتعلق صومالیہ سے ہے۔ ان کا نام الحان عمر ہے۔ اب جو فحش پوسٹر کی بات ہے تو رشیدہ صاحبہ نے حلف لینے کے بعد اپنی گفتگو میں ٹرمپ کو منہ بھر کر ماں کی گالی بھی دی۔ کچھ شور مچا۔ ان کی ڈیمو کریٹک پارٹی نے بھی برا مانا مگر رشیدہ نے اپنے الفاظ واپس نہیں لئے۔

تازہ ترین