• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار … سیمسن جاوید
ہمارے ملک میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ کہیں کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے بعد انہیں قتل کردیا جاتا ہے،کہیں من پسند لڑکی سے شادی نہ ہونے پراس لڑکی پر تیزاب پھینک کر ہلاک کر دیاجاتا ہے۔کہیں گھروں میں کام کرنے والی معصوم لڑکیوں کو جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہیں کمسن لڑکی بھگا لی جاتی ہے تو کہیں پیر سائیں عورتوں کی عزت سے کھیل جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ قسمت کی ماری ایک بیوی اپنے بیمار شوہر کے لئے پیر سائیں سے تعویز دھاگہ لینے گئی تو پیر سائیں نے عورت کو نشہ آور دوائی پلاکر اس سے اپنے ساتھیوں سمیت اجتماعی زیادتی کر ڈالی۔ ایک اور واقعہ ہے کہ ایک بدمعاش گن پوائنٹ پر تین بچوں کی ماں کو اغوا کر کے اٹھالے گیا۔ متاثرین انصاف کے انتظار میں عدل کی زنجیر ہلارہے ہیں مگر وقت کا بادشاہ اور اس کے حواری غفلت کی گہری نیند سو رہے ہیں آج ہمارا معاشرہ نام نہاد فلاحی اداروں،کمزور سیاسی لیڈر شپ اور قانون کے رکھوالوں کی نا اہلی کی وجہ سے پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ جنسی رجحانات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ قانون کی بے بسی کے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔فحاشی سر چڑھ کر بول رہی ہے ۔ ناسمجھ اور ناواقف عورت اپنے جائز حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی بجائے مرد کے خلاف پوسٹر اٹھائے احتجاج کرتی نظر آرہی ہے کہ ’’ کھانا گرم کردوں گی، بسترخود گرم کر لو‘‘ ،’’مجھے کیا معلوم تمہارے موزے کہاں ہیں‘‘۔’’میرا جسم میری مرضی‘‘،اور My gender is in my head Not in between my legs۔عورت کا ایک طبقہ تمام مذہبی،معاشرتی و سماجی اقدار سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔جب کہ غریب اور مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والی عورت جنسی تشدد اور نسل کشی کا شکار ہو رہی ہے۔اس انٹر نیشنل وومن ڈے پر پڑھی لکھی عورتوں نے معاشرے کے مہذب مردوں اور عورتوں کے سرشرم سے جھکا دیئے۔ان کے ہاتھوں میں عورت کے استحصال کے خلاف پوسٹر کیوں نظر نہیں آئے۔ عورتوں پر جنسی اور جسمانی تشدد اور اقلیت سے تعلق رکھنے والی عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف پوسٹر کیوں نظر نہیں آئے۔ تمام الہامی کتب عورت اور مرد کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتی ہیں جس سے مرد و زن کا تجاوز کرنا حکم الٰہی کی منافی ہے۔ مگرکچھ لوگ اسے صیہونی سازش قرار دیتے ہیںحالانکہ ہم نے کمسن بچیوں کے والدین، تین بچوں کی ماں کے شوہر پیر سائیں اور اس کے ساتھیوں سے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت کی فریاد کو قانون تک پہنچانے اور قوم کے بے حس نمائندوں کو جھنجوڑنے کی ذمہ داری کے فرض کو بھی پورا کرنا ہے۔ یہ بات سب پرعیاں ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی زیادہ لڑکیاں جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔جس کی بڑی وجہ غربت ہی ہے۔صوبائی وزیر اعجاز عالم آگسٹین سے رابطہ ہوا ۔ان سے کمیونٹی اور اقلیتوں کے مسائل پر حکومتی اقدام پر خاصی بحث و تکرار بھی ہوئی۔ صوبائی وزیراعجازعالم آگسٹین سے گفتگو کے بعد مسلسل کوشش کے بعد پی ٹی آئی کی ایم این اے شنیلہ روت سے فون پر رابطہ ہوا۔ان سے کافی تیزو تند گفتگو ہوئی۔یقین جانیے ان کو بالکل اسی طرح پایا جیسا لوگوں سے ان کے بارے میں سنا تھا۔ اچھنبا اسلئے نہیں ہوا کیونکہ پی ٹی آئی کے سبھی نمائندوں اور کارکنوں کا لہجہ تقریباً ایک جیسا ہی ہوتاہے ۔ وہی تیز گفتاراور بلند نعرے۔ان کے خیال میں جو لوگ ملک سے باہر ہیں چاہے وہ صحافی ہیں یا عام آدمی وہ ہوا میں باتیں کرتے ہیں۔انہیں اپنے ملک کے بارے میں کوئی خیر خبر نہیں۔انکا کہنا ہے کہ باہر رہنے والوں کے پیٹ میں خواہ مخواہ درداٹھتاہے۔ان کے بقول اگر آپ کا نیٹ ورک اتنا ہی مضبوط ہے تو آپ ہم سے معلومات کیوں لیتے ہیں۔خود کیوں معاملات ہینڈل نہیں کرتے۔لاعلمی کی انتہا دیکھیں کہ حکومت نے انکو ہمارا نمائندہ نامزہ کیا ہوا ہے تو ہمیں تو ان ہی سے پوچھنا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے لئے کیا کر رہی ہے۔ خیر ان سے ہونے والی گفتگو نے ماضی کی یادیں تازہ کردیں ۔ یہ جدا گانہ انتخابات کا دور تھا۔میں اورپیٹر عامی کوئٹہ بلوچستان سے ہفتہ وار اقلیتی ایڈیشن شائع کیا کرتے تھے۔کوئٹہ آنے والے ہر ایم این اے اور ایم پی اے سے اپنے ایڈیشن کے لئے انٹرویو لینا ہمارا مشغلہ تھا۔میں اور پیٹر عامی ،ایم این پیٹر جان سہوترہ سے انٹرویو لے رہے تھے۔کہ وہ ہمارے سوال پر مشتعل ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسلام آباد میں ہائوسنگ سکیم کے لئے زمین آپ نے حکومت سے منظور کروائی ہے جب کہ کیپٹن ثنااللہ کہتے تھے کہ یہ زمین انہوں نے حکومت سے الاٹ کروائی ہے اورحقیقت بھی یہی تھی کہ اسلام آباد میں ہائوسنگ سکیم کے لئے زمیں کیپٹن ثنااللہ مرحوم نے ہی الاٹ کروائی تھی۔ یہی حال اعجاز عالم صاحب اور شینلہ روت کا ہے۔وہ دونوں ہی کہتے ہیں کہ بہاولپور کے کیس کی ایف آئی آر پولیس نہیں کاٹ رہی تھی اور ایف آئی آر میں نے کٹوائی ہے۔یعنی دونوں کے ایکشن اور الفاظ ایک ہی جیسے تھے۔ہمارا مقصدہرگز کسی ایک کے کام کو رد کرنا نہیں بلکہ اگر ان دونوں ہی نے یہ کام کیا ہے توکیا ایف آئی آر ہی درج کروانا،یا لڑکی کو دارالامان بھیجنا ہی کافی ہے۔جبکہ دارالامان بھیجنے سے تمام لوگ لاعلم ہیں یہاں تک کہ نہ ہی لڑکی کے والدین اور نہ ہی ان کے وکیل کو کچھ پتہ ہے۔اب کیس نادرا کے ب فارم پر منحصر ہے جس سے لڑکی کی عمر کا صحیح تعین ہوگا ۔ جب کہ نئے قانون اور وکیل کے مطابق کمسن لڑکی نا نکاح کر سکتی ہے اور نا ہی اپنا مذہب تبدیل کر سکتی ہے۔کیس کاتذکرہ بار بار اس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ ان واقعات کو نہ روکنا کینسر جیسے لاعلاج مرض کے مترادف ہے۔ جو تیزی سے پھیلتا ہے۔رہی بات آسیہ بی بی کی آزادی کی تواگر آسیہ بی بی کی آزادی کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے تو پھر حکومت نے اسے پوری طرح آزاد کیوں نہیں کیا۔جہاں وہ آزاد فضا میں اپنی بچیوں اور شوہر کے ساتھ سکھ چین کا سانس لے سکتی۔ یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ والدین اپنی جوان بچیوں کو ملازمت کرنے کے لئے لوگوں کے گھروں میں کیوں بھیجتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ غربت ہے جو جرائم کو فروغ دیتی ہے۔جرائم کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ غربت کو کم کیا جائے۔حکومت کا ملازمتیں دینے کا وعدہ کب پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ اقلیتی سیاسی لیڈر 5% ملازمتی کوٹے کو بڑی کامیابی قراردیتے ہیں۔کسی حد تک یہ بہتر ہے مگر صوبہ پنجاب جہاں مسیحیوں کی کثیر آبادی ہے، ا س کیلئے نا کافی ہے ۔
تازہ ترین