• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہر کوئٹہ ، دن اتوار، تاریخ23دسمبر 2012ء، وقت سوا تین بجے سہ پہر، مقام  ایسٹرن بائی پاس، واقعہ اے کے 74کلاکوف سے گولیوں کی بوچھاڑ، نشانہ بلوچستان کے ’سر سید‘ پروفیسر فضل حق میر۔ قصور پاکستان سے عشق، بلوچستان سے محبت، تعلیم کے فروغ کا جنون ۔ میر صاحب تعمیر نو ایجوکیشن کمپلیکس کے دورے اور وہاں تعمیر ہونے والی عالی شان مسجد کے معائنے کے بعد واپس شہر آنے کے لئے نکلے ہی تھے کہ پچاس ساٹھ گز دور سیاہ رنگ کی ایک گاڑی نے ان کا راستہ روکا۔ ایک آدمی، میر صاحب کی گاڑی کی طرف لپکا، دروازے پر زور سے ہاتھ مارا اور اسے کھولنے کی کوشش کی۔ میر صاحب کو خطرے کا احساس ہوا تو انہوں نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی واپس موڑنے کے لئے کہا۔ اسی اثناء میں سیاہ گاڑی کے اندر سے گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ کچھ گولیاں دروازوں اور بونٹ پر لگیں۔ ایک گولی گاڑی کے پچھلے حصے میں لگی اور اس سیٹ کے نیچے سے ہوتی ہوئی آگے نکل گئی جس پر پروفیسر صاحب بیٹھے تھے۔ بچانے والا مارنے والوں سے طاقتور تھا، سبحان اللہ۔ اس نے اعلیٰ تعلیمی معیار کے حامل ایک پبلک کالج اور کئی پرائمری و ہائی اسکولوں کے بانی، چار اہم یونیورسٹیوں کی سینڈیکیٹس کے رکن، چلڈرن اسپتال و چلڈرن اکیڈمی کے اعلیٰ عہدیدار، غربا و مساکین کی مدد کرنے والے ادارے بہبود انسانیت کے صدر، تعمیر نو جامع مسجد کے خطیب اور تعلیم و فلاح کے شعبوں میں نمایاں قومی خدمات انجام دینے پر ستارہٴ امتیاز کا اعزاز پانے والے ایک بلند پایہ استاد، تعلیمی منتظم اور بلوچوں، پشتونوں اور آبادکاروں میں یکساں مقبول و دلنواز شخصیت کو بال بال بچا لیا۔ حملے کی ذمہ داری کسی نے بھی قبول نہیں کی۔ غالباً ضمیر یا معاشرے کی طعن و ملامت کا خوف آڑے آیا ہو گا یا مناسب موقع کا انتظار کیا جا رہا ہو گا۔ حکومت نے بھی اپنی دوسری گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے کسی کو پکڑنے کی زحمت نہیں کی۔
بلوچستان میں پچھلے چند سال کے دوران عام بے گناہ شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ بہت سی سیاسی، سماجی، مذہبی، تجارتی اور علمی شخصیات کو بھی قتل کیا گیا جو اپنی قومی اور پیشہ ورانہ خدمات کے حوالے سے معاشرے کے ہر طبقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ ان میں کچھ کے قتل کی ذمہ داری بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے قبول کی۔ کچھ فرقہ وارانہ قبائلی یا ذاتی دشمنیوں کی نذر ہوئیں اور کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں منظر عام سے ہٹانے میں سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ قتل ہونے والے سیاسی زعماء میں سابق سینیٹر حبیب جالب بلوچ، صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان، وزیر ایکسائز رستم جمالی، معروف رہنما مولا بخش دشتی، ڈاکٹر نسیم جنگیاں، نور الدین مینگل اور بعض دوسرے مشاہیر وعمائدین شامل ہیں۔ قتل کرنے والوں نے ماہرین تعلیم کو بھی نہیں بخشاجو اس پسماندہ اور محرومیوں کے شکار صوبے میں علم و فن اور شعور و آگہی کے فروغ میں مخلصانہ اور عالمانہ کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں ڈاکٹر صفدر علی کیانی، پروفیسر فضل باری، پروفیسر صبا دشت یاری، پروفیسر ناظمہ طالب، پروفیسر امانت علی اور پروفیسر خورشید انصاری جیسے تجربہ کار اساتذہ کے نام سرفہرست ہیں۔ پروفیسر فضل حق میر قاتلوں کا تازہ ترین نشانہ تھے جنہیں بچانے والے نے بچا لیا۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں تعلیم کا معیار افسوسناک حد تک زوال کا شکار ہے، شرح خواندگی بہت کم ہے، نوجوانوں کے ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چلے جانے کے رجحان اور اساتذہ کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بدولت اندرون صوبہ بلوچ علاقوں میں اسکول تو کیا کالج بھی تقریباً بند ہیں جو کھلے ہیں وہاں پڑھنے اور پڑھانے والے نہ ہونے کے برابر ہیں، دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی اکثریت ملازمتیں چھوڑ کر جا چکی ہے اور مقامی اساتذہ بھی مجموعی ناسازگار ماحول میں تعلیمی اداروں کا سوچ سمجھ کر ہی رخ کرتے ہیں۔ تعلیمی زبوں حالی کے اس پس منظر میں صرف چند ادارے اور وہ بھی زیادہ تر پشتون علاقوں میں کوالٹی ایجوکیشن کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ ان میں پروفیسر فضل حق میر کی نگرانی میں اور ادارہ تعمیر نو کے زیر اہتمام چلنے والے کالج اور اسکولوں کے نام سرفہرست ہیں۔ ان سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں نوجوان اندرون و بیرون ملک نام کما رہے ہیں جبکہ دو تین کیڈٹ اور ریذیڈنشل کالجوں کے سوا بیشتر سرکاری اداروں سے ’پاس‘ ہونے والوں کی اکثریت مایوس و بیروزگار پھر رہی ہے۔ تعمیر نو کے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلوانا ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے۔ اس وقت ساڑھے چار ہزار سے زائد طلبہ ان اداروں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ اس سال صوبہ بھر میں ایف ایس سی میں پہلی تین پوزیشنیں تعمیر نو پبلک کالج نے حاصل کیں اور ٹاپ ٹوئنٹی میں اس کی چھ پوزیشنیں تھیں۔ اقبال کے مصرع ”نرم دم گفتگو،گرم دم جستجو“ کی جیتی جاگتی تصویر پروفیسر فضل حق میر کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے۔ وہاں سے ہجرت کر کے آئے نصف صدی سے بلوچستان میں تعلیم و تدریس کی شمع جلائے تعمیر نو کا ادارہ چلا رہے ہیں اور اس غربت زدہ خطے میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کی جو جدوجہد نواب یوسف عزیز مگسی، عبدالعلی اخوند اور دوسری علم دوست شخصیات نے شروع کی تھی اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کی جان لینے کی خواہش رکھنے والوں نے پہلے نہیں تو اب ضرور سوچنا چاہئے کہ یہ فضل حق میر، ڈاکٹر محمود علی شاہ، پروفیسر حمید اللہ خان اور ان جیسے دوسرے عظیم اساتذہ کا فیضان ہے کہ انہیں اپنے حقوق کا شعور حاصل ہوا جن کی بازیابی کیلئے وہ آج تگ و تاز میں مصروف ہیں۔ سرداروں کے سردار چیف آف جھالاوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے درست کہا کہ اساتذہ، ڈاکٹروں اور ماہرین فنون کو نشانہ بنانے والے صوبے کے دشمن ہیں۔ ان ہستیوں کا قتل یا یہاں سے چلے جانا صوبے اور عوام کا بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ یہاں کے لوگوں کو کچھ دے ہی رہے ہیں ۔صوبے کے روشن اور محفوظ مستقبل کے لئے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے اپنے مفاد میں ہے۔
تازہ ترین