• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
Lip service ایک انگلش ideom ہے۔ یعنی انگریزی کہاوت، محاورہ، بولی یا ضرب المثل کہہ لیں جس کا آسان اردو مطلب، معنی زبانی کلامی ہمدردی ہے۔ یہ محاورہ کشمیر یا کمیونٹی کے نام پر منعقدہ اکثر تقریبات دیکھ کر یاد آجاتا ہے کہ بعض برٹش ایم پیز، لارڈز مسئلہ کشمیر پر اپنی کمیونٹی کی میٹنگز میں تو بڑے بڑے بول بولتے ہیں وعدے کرتے ہیں مگر کامنز یا لارڈز میں مسئلہ کشمیر اٹھانا شاید بھول جاتے ہیں۔ ایم پیز، لارڈز وعدے کرتے ہیں کہ وہ کمیونٹی کی ایوان میں نمائندگی کریں گے۔ مگر کتنے ہیں جو ڈیم کیسی رپورٹ پر انگیج ہوئے؟ مسلمان، عیسائی اور یہودی سمیت تمام الہامی کتب پر اعتقاد رکھنے والوں کے بچوں کے حوالے جو قانون سازی ہوئی کرکلم، نصاب میں اہم تبدیلی آئی۔ مگر کتنوں نے اس حوالے قانون سازی میں مختلف مذاہب کو متاثر کرنے والے معاملات کو اٹھایا؟ بریگزٹ کو ہی لے لیں سارا ملک اس کے ہیجان میں مبتلا ہے مگر اپنے کتنے پارلیمنٹیرین ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی اور اپنے آبائی ممالک کے مفادات کو بھی بریگزٹ ڈیل کا حصہ بنانے کے لئے کوئی جتن کیا؟ یا کمیونٹی میں ہی آگاہی کی کوئی کمپین چلائی۔ اسی طرح مئی کے مہینے میں برطانیہ کی کئی لوکل کونسلوں کے الیکشن منعقد ہورہے ہیں۔ امیدوار ڈور ٹو ڈور دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ مگر اگلے چار سال کئی کونسلروں کی شکل دیکھنے کو لوگ ترس جاتے ہیں۔ اپنی کمیونٹی سے متعلق کئی لوگ کونسلرز بننے کے بعد گویا مزے کی نیند سو جاتے ہیں۔ کمیونیٹی مسائل سے گویا پھر ان کا دور کا کوئی واسطہ نہیں رہتا۔ حالانکہ یہ تو ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے جو وہ اپنے سر لے رہے ہوتے ہیں، ان کے حلقہ انتخاب میں لوگوں کی ضروریات کس نوعیت کی ہیں، کمیونٹی کن مسائل سے دوچار ہے۔ برطانیہ بھر میں اپنے کاروباری علاقے جو ہیں وہاں پر مین اسٹریم شاپنگ مراکز کی طرح آخر رفع حاجت کی سہولیات کیوں نہیں مہیا کی جاتیں کیا پاکستانی کشمیری کاروباری باقی کمیونٹیز کی طرح ٹیکس ادا نہیں کرتی کہ ان کے صارفین کو ٹوائیلٹس کے علاوہ پارکنگ کی سہولیات بعض جگہوں پر دستیاب نہیں ہیں، کیا کونسلیں، لوکل اتھارٹیز ذمہ دار ہیں یا خود اپنے کاروباری طبقے بھی؟ کہ برطانیہ تو ہر میدان میں برابری کے موقع مہیا کرنے کا پابند ہے۔ کیا حلقے کے کونسلرز کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ پاکستانی کشمیری کاروباری مراکز کو بھی صاف ستھرا رکھنے اور بہتر سہولتیں فراہم کرنے کیلئے رول ادا کریں، الیکشن مہم کے دوران جو وعدے لوگوں کے گھر جاکر ووٹ مانگتے وقت کئے جاتے ہیں۔ گھر کی دہلیز پر سہولتوں کا وعدہ بھی سننے میں آتا ہے الیکشن کارنر، میٹنگز اور دیگر پروگراموں اپنے لیفلٹس، کتابچوں کے ذریعے بھی طرح طرح کے جو وعدے کئے جاتے ہیں جو حلقے میں روزگار اور تعلیم کے بہتر مواقع لانے، گلیوں سٹریٹ لائٹس کو خوبصورت بنانے، تفریح اور لیژر leisure سہولتیں مہیا کرنے کے سہانےوعدے کئے جاتے ہیں۔ پاکستانی کشمیری اور اقلیتی آبادیوں کو جرائم سے پاک ماحول دینے اور بہتر ہائوسنگ سہولتوں کے علاوہ کمیونٹی کی ضروریات کے مطابق جدید سہولتوں سے مزین کمیونٹی سینٹرز کی تعمیر اور اس طرح کے وعدوں کی ایک طویل فہرست ہے مختصر کالم میں کمیونٹی مسائل اور وعدوں اور کونسل امیدواروں کی کمٹمنٹ کا ایک خاکہ ہی پیش کیا جاسکتا ہے تو کیا یہ سب لپ سروس ہی کے زمرے میں آتے ہیں؟ پھر اپنے آزاد کشمیری سیاست دان ہیں برطانیہ آتے ہیں اکثر اپنی ہی کمیونٹی اور اپنے ہی میڈیا سے انگیج ہوکر آزاد کشمیر پر لپ سروس دیتے ہیں۔ کمیونٹی کو سہانے خواب دکھانے کا ہنر کوئی ہمارے آزاد کشمیری زعما سے سیکھے۔ درج ذیل سوالات بھی زیر گردش ہیں کہ اگر ہمارے آزاد کشمیر کے قائدین کشمیر کے مسئلہ کو ہی اجاگر کرنے آتے ہیں تو کیا اس کے لئے کوئی مشترکہ فورم نہیں بنایا جاسکتا؟ کیا وہ جماعتی خول سے نکلنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے؟ جبکہ وزیراعظم کے علاوہ آزاد کشمیری اپوزیشن لیڈروں کے متعدد دورے برطانیہ بھی کیا مسئلہ کشمیر کے حوالے کسی پیش رفت کا باعث بن رہے ہیں؟ کہ ہر تھوڑے عرصہ بعد برطانیہ آوری؟ یا یہ صرف نمائشی روایتی تقریبات ہیں؟ چاہے ن لیگ کی تقریب ہو یا پی پی، پی ٹی آئی، مسلم کانفرنسی زیادہ تر منتظمین تقریبات اور مہمانان گرامی ایک دوسرے کی تعریفوں اور توصیفوں کے پل باندھ رہے ہوتے ہیں اور بعض نامعلوم خدمات پر منتظمین کی طرف سے شیلڈز بھی پیش کی جاتی ہیں حالانکہ مقبوضہ کشمیر تو بدستور بھارت کی غلامی کی چکی میں پس رہا ہے۔ اسی طرح کشمیری پاکستانی ڈائیسفرا کے برطانیہ اور وطن عزیز کے اندر بھی بدستور گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ پھر ایوارڈز کس خوشی میں؟ آج کل بلکہ وزیراعظم اور آزاد کشمیری لیڈروں کے پروگراموں میں دیگر جماعتوں سے متعلق عہدیداروں یا یہاں کے منتخب کونسلرز، ایم پیز لارڈز سے مشاورتی سیشنز بھی زیادہ تر پروٹوکول کے چکروں میں مسئلہ کشمیر اسیر دکھائی دیتا ہے پھر ایک ایسا consensus ڈیویلپ ہوتا صاف نظر آتا ہے کہ برطانیہ میں کمیونٹی سے متعلق عمائدین جن کا دائرہ مختلف جماعتوں کے عہدیداروں، متعدد منتخب اور غیر منتخب نمائندوں اور یہاں کی کونسلوں، ایوان بالا اور ایوان زیریں کے بعض اراکین تک شاید پھیلتا جارہا ہے کہ یہ آزاد کشمیری پاکستانی ارباب اختیار کی یہاں پر مسئلہ کشمیر کے نام پر خاطر تواضح کریں گے اور ان ریٹرن وطن عزیز میں یہاں کی ہماری لیڈر شپ پروٹوکول کے مزے لوٹے گی۔ پھر ایک سوال یہ بھی زیر بحث ہے کہ کیا آزاد کشمیر کی جو کمیونٹی برطانیہ میں ہے اس کا مقصد کیا آزاد کشمیری اکثر بدعنوان سیاسی رہنمائوں یا افسران بالا کے اوورسیز دوروں کو پروموٹ کرنا ہے یا کہ خود اپنے بال بچوں کے مسائل پر توجہ دینا اور خارجی محاذ پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا۔ پھر اوورسیز ایم ایل اے کا رول کیا ہے؟ وہ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ پھر کیا ان دوروں کو کسی طرح بامقصد بنایا جاسکتا ہے؟ کہ اکثر مسئلہ کشمیر کے نام پر سیلف پروجیکشن ہورہی ہے اس سلسلے کو روکا جاسکے۔ اور کسی طرح برطانیہ میں آزاد کشمیری باشندوں کے رول کو زیادہ بہتر طور پر یوٹیلائز کیا جاسکتا ہے اور انہیں لپ سروس دینے والے سیاستدانوں کے چنگل سے نجات مل سکتی ہے؟ اور کیا وزیراعظم اپوزیشن لیڈر اور دیگر بڑی کشمیری جماعتوں کے رہنما کوئی مثال سیٹ کرسکتے ہیں کہ آزاد کشمیری ڈائیسفرا مسئلہ کشمیر پر کوئی بامقصد پروگرام شروع کرے۔ آخر کسی نہ کسی کو کہیں سے تو شروعات کرنا ہوں گی۔ پھر کیا جو عہدے بانٹے جاتے ہیں ان میں کسی میرٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے یا پسند نا پسند۔ ایک سوال کشمیری حلقوں میں بھی زیر گردش رہا کہ جس وقت جبکہ وطن عزیز پر جنگ کے بادل چھائے تھے کیا وزیراعظم اور دیگر کشمیری لیڈر شپ کو وطن عزیز کے اندر موجود نہیں ہونا چاہیے نہ کہ برطانیہ کے دوروں پر؟ جبکہُ بعض اوقات اپنے پاکستانی کشمیری نژاد برطانوی یا وطن عزیز سے تشریف لائے ہوئی پولیٹیکل ایلیٹ کے بہ نسبت بلکہ کئی حد تک بہتر برطانوی پارلیمنٹرین مسئلہ کشمیر اورکشمیریوں پر مظالم پر اعداد و شمار سے واقف اور کشمیر پر بہتر اپروچ جیسا کہ اگلے روز الیکس میئر نے ایک پروگرام کا اہتمام کیا ہر چند کہ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ بھی ہے کہ برطانیہ میں اگر قبل از وقت الیکشن کا بگل بج گیا تو یہ لیبر ہارٹی کی ایک الیکشن اسٹریٹیجی کا حصہ ہوسکتا ہے کیونکہ لوٹن کے دونوں پارلیمانی حلقے عجیب صورت حال سے دوچار ہیں دونوں سے لیبر ممبر پارلیمنٹ ہیں لوٹن حلقہ ساؤتھ سے ممبر پارلیمنٹ گیون شوکر پچھلے دنوں لیبر پارٹی سے ہی مستعفی ہوگئے جبکہ حلقہ شمالی سے لیبر ایم پی کیلون ہوپکِنز بوجوہ معطل بتائے جاتے ہیں جس باعث لیبر پارٹی کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ ان حلقوں کا کچھ سوچے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ الیکس مئیر کشمیر پر کافی ریسرچ کرکے آئی تھیں ان سے راقم کی جو بات چیت ہوئی اور ان کا کشمیر میں حقوق انسانی کی شدید پامالیوں پر جو خطاب تھا وہ خاصا متاثر کن تھا۔ جبکہ یہاں پر میٹنگز کے شرکا کو راقم نے اپنے محسوسات سے بھی آگاہ کیا کہ کمیونٹی کشمیر پر لپ سروس سے تنگ آچُکیُ ہے اس لئے اب مسئلہ کشمیر پر ہر صورت بامقصد بات ہی کی جائے۔
تازہ ترین