• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن، نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے جو کچھ کیا، وہ غیر مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کے لیے بھی قابل تقلید ہے۔ اگر دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو نیوزی لینڈ کی قوم کی پیروی کرنا ہوگی۔

کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کی پوری قوم اس کوشش میں مصروف ہوگئی کہ آئندہ اس کی سرزمین پر ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک یا کسی بھی دوسرے غیر مسلم ملک میں ایسی بلند آواز نہیں گونجی اور نہ ہی ایسی قومی یکجہتی کا مظاہرہ ہوا، جس طرح نیوزی لینڈ میں دیکھا گیا۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کو جب اس واقعہ کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے فون کرکے پوچھا کہ امریکا ان کی کیا مدد کرسکتا ہے تو وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے انہیں جواب دیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں۔ باقی سب کام نیوزی لینڈ خود کرے گا۔ اس جواب پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم دنیا کی بہت بلند قامت رہنما نظر آئیں۔ صرف سپر پاور امریکا کے صدر ہی نہیں بلکہ دنیا کے قد آور سیاسی اور غیر سیاسی قائدین بہت چھوٹے نظر آنے لگے۔

دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم نے اپنے بیانات میں ’’اگر مگر‘‘ کا سہارا نہیں لیا اور نہ ہی امریکا اور مغرب کا یہ بیانیہ استعمال کیا کہ کرائسٹ چرچ کا واقعہ مسلمانوں کی انتہا پسندی کا ردعمل ہے یا تہذیبوں کا تصادم ہے۔ جیسنڈا آرڈرن نے مسلم رہنمائوں کے اس بیانیہ کا بھی جواب نہیں دیا کہ مسلم فوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کہتی ہیں کہ جس نے کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملہ کیا، وہ دہشت گرد ہے۔ اس کا نام بھی وہ اپنی زبان پر نہیں لائیں گی اور اسے صرف دہشت گرد کہیں گے۔ وہ دہشت گردی کے لیے کسی بھی دلیل اور کسی بھی جواز کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد کی انتہا پسندانہ ذہنیت یا سوچ پیدا ہونے کے جو بھی اسباب ہوں، وہ ناقابل قبول ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی صرف انسانیت کی تباہی ہے۔ اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر جیسنڈا آرڈرن کا یہ فلسفہ سمجھ میں آجائے تو امریکی پروفیسر سیموئیل ہٹینگ ٹن کا ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا فلسفہ زمین بوس ہوجاتا ہے اور اس کے ردعمل میں مسلم دنیا میں جو انتہا پسندانہ سوچ پیدا ہوگئی ہے، وہ بھی اپنا جواز کھودیتی ہے۔ مسلمان اقلیت کی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے مغرب میں پیدا ہونے والی جوابی انتہا پسندی جسے اسلامو فوبیا کا نام دیا جارہا ہے، بھی دلیل سے عاری ہوجاتی ہے۔ جیسندا آرڈرن کا فلسفہ یہ ہے کہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے اور وہ صرف استبدادی اور غارت گر قوتوں کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔

کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت نے قومی اتفاق رائے سے اپنی گن کنٹرول پالیسی فوری طور پر تبدیل کردی اور خودکار ہتھیاروں کی خرید وفروخت اور استعمال پر پابندی عائد کردی۔ خودکار اسلحہ اور ہتھیار رکھنے والوں کو ایمنسٹی اسکیم کے تحت اسلحہ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے اور اسلحہ جمع نہ کرانے والوں کو قید وجرمانے کی سزا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ساڑھے تین عشروں سے دہشت گردی ہورہی ہے لیکن اسلحہ کو کنٹرول کرنے کی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کئی آپریشنز ہوئے اور اب نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس کے باوجود دہشت گرد کارروائیاں کررہے ہیں۔ اصل مسئلہ وہ سوچ اور وہ رویہ نہیں ہے جو نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام کا ہے۔

متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی اور اظہار ہمدردی کے لیے نیوزی لینڈ کے لوگوں نے جو کچھ کیا، وہ بھی ہم سب کے لیے قابل تقلید ہے۔ ہمارے ہاں متاثرہ اور مظلوم گروہ، مسلک اور خاندان کے لوگ اکیلے بیٹھ کر پریس کانفرنس کررہے ہوتے ہیں اور انصاف کی دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک سو لاشیں سڑک پر سخت سردی میں رکھ کر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کوئی اظہار یکجہتی نہیں کرتا اور ان کے حق میں کوئی مظاہرے نہیں کرتا۔ پورا نیوزی لینڈ مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں صرف یہی کام ہورہا ہے۔ سرکاری دفاتر میں متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہورہا ہے۔ جمعہ کو سانحہ کرائسٹ چرچ کا ایک ہفتہ مکمل ہونے پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اذانیں نشر کی جارہی ہیں اور یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ کسی دوسرے کے عقیدے کا احترام کرنے سے اپنے عقیدے کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔ دنیا نے دیکھا کہ قاتل اور دہشت گرد کے حق میں بولنے والے نیوزی لینڈ کے سینیٹر کو انڈا مارکر ایک نوجوان نے انتہا پسندانہ سوچ سے نفرت کا اظہار کردیا۔ نوجوان کا یہ اقدام نیوزی لینڈ کے سماج کی اجتماعی دانش کا مظہر ہے۔ یہ اجتماعی شعور ہمیں باور کرتا ہے کہ مسلمانوں کا قتل کوئی غیر مسلم کرے تو وہ بھی دہشت گردی ہے اور مسلمانوں کا قتل کوئی مسلمان کرے تو اس پر بھی خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ دہشت گرد کو دہشت گرد کہنا چاہئے، چاہے اس کا تعلق ہمارے مذہب، مسلک، نسل یا گروہ سے ہو یا نہیں۔ کاش ہم مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام پر ایسے ہی ردعمل کا اظہار کریں، جس طرح نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون کرکے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن خراج تحسین کے لیے الفاظ کا انتخاب اور زیادہ بہتر ہوسکتا تھا۔ اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو نیوزی لینڈ کی اس اپروچ کا ادراک کرنا ہوگا کہ نیوزی لینڈ کی سرزمین پر انتہا پسند کیوں پیدا ہوا۔

تازہ ترین