• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
نیوزی لینڈ کی گزشتہ ڈھائی سو سالہ تاریخ میں 15مارچ 2019 کو ایک بڑے شہر میں اتنے بڑے قتل عام کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ نسل پرست انتہا پسند برنٹن ٹرنٹ نے اپنے ماتھے پر کیمرہ لگا کرلائیو ویڈیو چلاتے ہوئے دو مساجد میں کم ازکم 50افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ جو کہ 1997 کے ایک قتل عام کے واقعے کے بعد جس میں 6افراد قتل ہوئے تھےپہلا بڑا اور اندوہناک واقعہ ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرنے سے پہلے نیوزی لینڈ کے پس منظر میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ تو لوگ اس واقعہ پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے مشفقانہ اور متاثرین کیلئے خود کو انتہائی شرمندہ محسوس کرنے پر حیران ہیں۔ ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کے عوام (جنہیں کیوی Kiwi کہتے ہیں) جو کہ مسلمانوں کیلئے ہمدردی اور درد محسوس کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی عبادت کے دوران ان کی حفاظت کیلئے پیچھے کھڑے ہورہے ہیں اور نیوزی لینڈ میں مسلم اقلیت کی حفاظت نہ کرسکنے پر خود کو ذمہ دار محسوس کررہی ہیں۔ یہ باتیں سوال اٹھاتی ہیں کہ یہ کس قسم کا ملک ہے اور یہاں رہنے والے انسان کس قسم کی مٹی سے بنے ہیں جو اپنے ہم وطنوں سے زیادتی پر اتنا احساس کررہے ہیں۔ نیوزی لینڈ بڑے بڑے نیشنل پارکوں کی سرزمین ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ حشرات، چرند، پرند اور جنگلی حیوانات سے بھری پڑی ہے۔ جہاں پرندوں کی صبح سے رات تک سنائی دینے والی سریلی دھنیں دنیا بھر سے سیاحوں کو اس سرزمین کی طرف کھینچتی ہیں۔ جہاں پر چرند، پرند اور جانوروں کی حیاتیات کو سنبھالنے اور جانوروں کی ختم ہوتی نسلوں کو بچانے کا کام قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں انسان کے خون کےساتھ ہولی کھیلنا یاانسانوں کو تکلیف میں دیکھنا دھرتی کے تخم و مزاج کے خلاف ہے۔ نیوزی لینڈکی آبادی 48لاکھ ہےجبکہ رقبے میں برطانیہ سے تقریباً 10فیصد بڑا ہے۔ لوگ عمومی طور پر خوشحال ہیں اور کم از کم تنخواہ 20ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ اس کے شہر اور قصبے بہت کم آبادی والے ہیں۔ نیوزی لینڈ آزاد ملک تو ہے لیکن چونکہ برطانیہ کی نو آبادی تھا۔ اس لئے وہاں آج بھی ہیڈ آف دی سٹیٹ ملکہ وکٹوریہ ہے۔ کرائسٹ چرچ شہر جہاں یہ خونی واقعہ رونما ہوا جس میں مساجد میں عبادت کیلئے آنے والے کم از کم پچاس مسلمان شہید ہوئے اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اس شہر کی کل آبادی 4لاکھ کے لگ بھگ ہے جہاں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند برنٹن ٹرنٹ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے نسل پرستی کے بھیانک جذبے کی آگ ٹھنڈی کی۔ ٹرنٹ نے 47صفحات پر مشتمل اپنا نفرت آمیز اور زیریلا منشور پہلے ہی جاری کیا تھا جس کا ٹائٹل یا نام The Great Replacement رکھا ہوا تھا جس میں ٹرنٹ نے باہر سے نیوزی لینڈ آنے والوں خصوصاً مسلمانوں کے وہاں settleہونے پر شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں invaders کہا ہے۔ اس منشور میں اس نے لکھا ہے کہ اس کا بدن ان انویڈرز کو جان سے مار دینے کی خواہش اور تڑپ سے ٹوٹ رہا ہے اور وہ یہی جان سے مار دینے کی خواہش دوسرے لوگوں میں بھی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہ نفرت اور قتل و غارت گری کی ترغیب سے بھرا منشور ٹوئٹر، فیس بک اور نفرت پھیلانے والی بلیک ویب پر بھی پوسٹ کیا گیا تھا جبکہ ٹرنٹ کے پاس سے پکڑی جانے والی رائفل پر سفید فام نسل پرست نعرہ درج تھا اس نے ناروے کی دہشت گردی کو بھی سراہا تھا جس میں 2011 میں 8 افراد کو بم کے ذریعے اور ایک دہشت گرد کی طرف سے ایک سمر کیمپ میں داخل ہوکر 69افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے حالیہ واقعہ پر مغربی میڈیا کمال ہنرمندی سے تعصب کی فضا پیدا کرتا ہے۔ رپورٹنگ اس انداز سے کی جاتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے نیوزی لینڈ کے فوراً بعد برطانیہ،ہالینڈ کے علاوہ دیگر کئی علاقوں میں اس واقعہ سے متاثر ہوکر کئی واقعات رونما ہوئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں لوگ نقل مکانی کرکے بخوشی آئے۔ ایسا نہیں ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے انہیں اقتصادی ضروریات اور مفادات کے تحت پر کشش طریقوں سے آنے دیا۔ مخصوص تعداد کیلئے مختلف اوقات میں ویزےکھولے گئے۔ امیگریشن کے قوانین نرم کئے گئے۔ آنے والوں کیلئے معاشی اور سوشل سہولتیں فراہم کی گئیں۔ غریب ممالک میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ لوگل نقل مکانی کیلئے مجبور ہوجائیں۔ ساتھ ساتھ ایسی نسل پرست تنظیموں کی بھی آبیاری جاری رکھی تاکہ آنے والے کبھی خود کو محفوظ و مستحکم محسوس نہ کرسکیں۔ کبھی انہیں مذہب کے نام پر نفرت کانشانہ بنایا اور کبھی نسل پرستی کی بھینٹ چڑھایا اس سامراجی پالیسی نے آج دنیا بھر کے انسانوں کو تقسیم کرکے ایک دوسرے کیلئے غیر محفوظ بنادیا ہے۔ وگرنہ نیوزی لینڈ میں ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا۔
تازہ ترین