• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظم نے قانون کے دائرے میں رہ کر ساری جدوجہد کی، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) یوم پاکستان کے حوالے سے جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ اسپیشل میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ قائد اعظم نے قانون کے دائرے میں رہ کر ساری جدوجہد کی ،انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دلیل کے ذریعے اپنے مشن کو کامیا ب اور پاکستان کو تخلیق کیا۔پروگرام میں معروف صحافی ، کالم نگار مجیب الرحمان شامی،محقق،دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود اور محقق اور دانشور پروفیسر فتح محمد ملک نے شرکت کی۔ معروف کالم نگارمجیب الرحمان شامی نے کہا کہ قائد اعظم پارلیمینٹیرین تھے وہ قانون پسند شخص تھے انہوں نے قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی ساری جدوجہد کی۔ان کی ساری جد وجہد کا حسن یہ ہے کہ وہ دلیل کے ساتھ بات کرتے رہے ،قائد اعظم نے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر ہمیشہ دلیل کے ذریعے اپنے مشن کو کامیاب کیا اور پاکستان کو تخلیق کیا ۔مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف مسلمان مفکرین ہی نہیں بلکہ کئی ہندو سوچنے والے بھی ایسے تھے جو ہندو اور مسلمانوں کو دو قومیں قرار دیتے تھے ۔ اگرچہ وہ اس کا الگ نتیجہ نکالتے تھے اور کہتے کہ مسلمانوں کو یہاں حقوق حاصل نہیں ہونے چاہئیں کبھی کہا کہ مسلمانوں اور ہندوں کو دو خطوں میں بانٹ دیا جائےتو ہندووں کی جانب سے بھی ایسی سوچ سامنے آتی رہی ۔ مجیب الرحمان شامی نے بتایا کہ مسلمان مفکرین بھی بلآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں الگ مملکت قائم ہو جانی چاہئے ۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے بتایا کہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مسلمان مملکت کے لیےسندھ مسلم لیگ نے 1938 میں قرارداد پاس کی تھی اور مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے کہاکہ اس اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی تھی اور پھر مسلم لیگ کی ایک کمیٹی بنا دی تھی اور 1939 میں باقاعدہ ایک قرارداد پر غور کیا اور اس مطالبے کو ایک آئینی شکل دینے کی کوشش کی ۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ 1940 میں یہ بات پہلی دفعہ نہیں سامنے آئی ۔ سندھ مسلم لیگ تو 1938 میں قرارداد بھی پاس کر چکی تھی ۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے بتایا کہ اس قرارداد میں سبجیکٹ کمیٹی میں 15 سے 16 ترامیم ہوئیں اور ایک ترمیم خود قائد اعظم کے ہاتھ سے ہے ۔ اور یہ قراردا دمسلم لیگ کی دستاویز میں شامل ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ قرارداد کہاں سے آئی ، کس نے ڈرافٹ کی اور اس میں کیا ہوا ۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر فتح محمد ملک نے بتایا کہ انگریزوں نے " انڈین نیشنل کانگریس " کی بنیاد رکھی اور پہلا سربراہ سول سرونٹ تھا ۔ اس پر سر سید احمد نے تقریر میں کہا کہ انڈیا ایک قوم نہیں ہے یہ کئی قوموں کا گھر ہے ۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے سرسید احمد خان کے انگریزی کے حروف بتاتے ہوئے کہا کہ سر سید احمد خان کے الفاظ تھے India is land of many nations . India is a continent not country . انہوں نے کہا کہ یہ دو قومی نظریہ مختلف ادوار میں ہر زمانے کے سیاسی حالات کے مطابق ترقی کرتا 1930 کے خطبہ الہ آباد تک پہنچا ۔ پروفیسر فتح محمد ملک کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کے قائداعظم کو لکھے خطوط سے ثابت ہوتا ہے کہ قرارداد پاکستان علامہ اقبال کے خیالات کی سیاسی ترتیب ہے ۔ توڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ 1876 میں جالندھر کی تقریر میں سر سید احمد خان نے کہا کہ " یہ نا ممکن ہے کہ ہندو اور مسلم ایک دوسرے کے حاکم اور محکوم بن کر رہ سکیں ، میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے سر پر کلمے کا تاج ہو گا اور آپ اچھے رہیں گے " ۔ انھوں نے کہا کہ قائد اعظم کے خیالات کو ڈھالنے میں علامہ اقبال کے خطوط کا اہم کردار ہے ۔ علامہ اقبال کی برسی جو کہ فروری نہیں بلکہ مارچ میں منائی گئی تھی ، اس موقع پر قائد اعظم نے کہا کہ " آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو وہ کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے وہ کر دکھایا جو وہ چاہتے تھے " ۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے بتایا کہ نظریاتی بنیاد علامہ اقبال کے ان خطوط نے ہی رکھی ۔علامہ اقبال نے قائد اعظم کو تجویز دی کی اب وقت آ گیا ہے کہ آپ اس کا مطالبہ کریں ۔ علامہ اقبال نے قائدا عظم محمد علی جناح کو جو 35 سے 37 خطوط لکھے ان کا بڑا اہم کردار تھا اور اس کا اعتراف خود قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا ۔ مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ جب تک پاکستان ایک مطالبہ اور ایک تحریک تھی اس وقت تک 23 مارچ کو پورے جوش وخروش سے یوم پاکستان منایا جاتا رہا اور جب پاکستان قائم ہو گیا تو پھر جو یوم آزادی تھا ہمارا 14 اگست اس کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی اور یوم آزادی کےطور پر ہم نے اسی دن کو منایا لیکن جب1956 ء میں ہم نے دستور منظور کر لیا تو پھر ری پبلک ڈے کے طور پر 23 مارچ کا دن چنا گیا اور چوہدری محمدعلی جو پاکستان کے وزیراعظم تھے اور 1956ء کے دستور کے خالق تھے ان سے جب میری خود بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ اصل میں ہماری مشکل یہ تھی کہ 14 اگست کو پریڈ نہیں ہو پاتی تھی کیوں کہ یہ برسات کا موسم ہے اور بارشیں شروع ہو جاتی تھیں ۔

تازہ ترین