• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں اپنے روشنیوں کے شہر کراچی گیا تھا وہاں بہت سے صنعتکاروں سے ملاقاتیں رہیں۔ گپ شپ رہی، حالات حاضرہ پر گفتگو رہی اور خاص طور پر معیشت پر بھی گفتگو ہوئی۔ مسئلہ یہ تھا کہ میں صنعتکار ہوں اور نہ ہی بینکر اور نہ ہی صاحبِ دولت و اقتدار، اپنی تھوڑی بہت تعلیمی معلومات کی بنیاد پر بحث و مباحثہ میں حصّہ لے لیتا ہوں۔ باتوں باتوں میں سود (یعنی رِبا) پر بات چل پڑی اور کچھ دوستوں نے مغربی ممالک کی مثالیں دیکر اسکی حمایت کی اور چند دوستوں جن کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے، دیندار ہیں، نے اسکے نقائص اور احکام اِلٰہی کی روشنی میں اس کو حرام قرار دیئے جانے کے بارے میں دلائل دیئے۔ میں خود چند ایسے صنعتکاروں کو اچھی طرح جانتا ہوں جنہوں نے بینکوں سے بھاری شرح سود پر قرضے لئے اور ہمیشہ سخت پریشانی، فقدانِ سکونِ قلب کا شکار رہے۔ ان کی اولاد بے حد پریشان رہی۔ میں نے اس وقت مشورہ دیا کہ جس طرح ہو جائیداد وغیرہ فروخت کر دو، اللہ پاک برکت دے گا اور برکت آ جائے گی۔ یہی ہوا، انہوں نے کچھ جائیداد بیچ دی اور اب ماشاء اللہ نہایت عزّت و بے فکری سے اپنا بزنس چلا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی ہے۔ آج کل حکومت غیر ملکی قرضے سود پر لے رہی ہے اس وجہ سے میں اس موضوع پر یہ چند سطور تحریر کر رہا ہوں۔

اللہ رب العزّت نے ہمیں کلام مجید میں، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہر موضوع پر تفصیل سے ہدایات فرمائی ہیں۔ ہر عمل کے اچھے اور بُرے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض اوقات شیطان لوگوں کو ان کے بُرے کام اچھے کرکے دکھاتا اور گمراہ کرتا ہے اور پھر ان کی گرفت کی جاتی ہے۔ بعض اوقات اللہ رب العزّت خود ایسے گنہگاروں کو بطور حُجّت مہلت دے دیتا ہے کہ یہ یا تو ٹھیک ہو جائیں یا مزید گناہ کریں اور پھر ان پر سخت، تکلیف دہ عذاب نازل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں آپ کو حجّت و بحث کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی ان میں کمی یا خامی تلاش کرکے من مانی کرنے کی گنجائش و اجازت ہے۔ اللہ رب العزّت نے سود کے بارے میں جو واضح احکامات دیئے ہیں، میں وہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان نے چھو کر بائولا (یعنی پاگل، حواس باختہ) کر دیا ہو۔ یہ حال ان کا اس وجہ سے ہو گا کہ انہوں نے سود کے حرام ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ایک بات (قسم) ہے۔ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ بس جس کو اپنے رب کی جانب سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود لینے سے باز آگیا تو جو کچھ وہ پہلے لے چکا، وہ اُسی کا رہا۔ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو کوئی اس حکم کے بعد اس حرکت کا اعادہ کرے گا تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ میں رہیں گے‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 275) ’’اللہ سود کو نابود یعنی بے برکت کرتا ہے اور خیرات کی برکت کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 281) ’’مومنو! جب تم آپس میں کسی میعادِ معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اللہ نے اُسے سکھایا ہے، لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ لے اور جو شخص قرض لے وہی دستاویز کا مضمون بول کر لکھوائے اور اللہ سے کہ اُس کا مالک ہے، خوف کرے اور زرِ قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بے عقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مَردوں کو ایسے معاملے کے گواہ کر لیا کرو۔ اور اگر دو مَرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو کافی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اُسے یاد دلا دے گی۔ اور جب گواہ گواہی کیلئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت، اس کی دستاویز کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات اللہ کے نزدیک نہایت قرینِ انصاف ہے اور شہادت کیلئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تم کو کسی طرح کا شک و شبہ بھی نہیں ہوگا۔ ہاں! اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر ایسے معاملے کی دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید و فروخت کیا کرو تو بھی گواہ کر لیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ معاملہ کرنے والوں کا کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم لوگ ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور اللہ سے ڈرو اور دیکھو کہ وہ تم کو کیسی مفید باتیں سکھاتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے‘‘(سورۃ النساء، آیت 161) ’’اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو اس سے اللہ کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو وہ موجبِ برکت ہے اور ایسے ہی لوگ اپنے مال کو دگنا، تین گنا کرنے والے ہیں‘‘ (سورۃ الروم، آیت 39) قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ نے سود لینے اور دینے کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے مرتکب ہونے والوں کو بہت سخت تکلیف دہ عذاب دینے کا انتباہ کیا ہے۔ ہمارے لاتعداد عالموں، ولی اللہ نے بھی اس حرام کام سے منع کیا ہے۔ کئی احادیث مبارکہ میں بھی سود کے خلاف سخت ہدایات ہیں، جن میں سود کی لعنت سے خبردار کیا گیا ہے اور اس کی سزا سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔

دیکھئے سود کی لعنت سے بچنے کے لئے معاشی ماہرین اور علماء نے ایک طریقہ کار ایجاد کیا ہے جس کو وہ اسلامک بینکنگ کہتے ہیں، اردو میں ہم اسے مُضاربہ (Mudarabah) کہتے ہیں۔ اس میں ایک پارٹی رقم (فنڈ) مہیا کرتی ہے اور دوسری پارٹی اس کا انتظام، مہارت مہیا کرکے تجارت کرتی ہے۔ اصول یہ ہے کہ رقم، فنڈ مہیا کرنے والا تجارتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا مگر وہ ایسے اصول و قوانین پر زور دے سکتا ہے جو اس کی رقم کی حفاظت کریں۔ بہت سے سیدھے سادھے لوگوں کو (جو مذہبی رجحان رکھتے ہیں) کچھ چالاک لوگ اس سسٹم میں پھنسا کر رقم پر قبضہ کرلیتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں عیّار لوگ اربوں روپیہ اکٹھا کرکے غائب ہو گئے اور ایف آئی اے ان کو پکڑتی پھر رہی ہے۔ عوام اگر اپنی رقم کسی بھی مضاربہ میں لگانا چاہیں تو ان کو پہلے جانچ پڑتال کرلینا چاہئے اور کسی اچھے سمجھدار بینکر سے ضرور مشورہ کرنا چاہئے تاکہ دھوکہ نہ کھائیں اور حلال کی کمائی حلال کام میں لگانے کے چکّر میں اپنی محنت کی کمائی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ ایک نصیحت: غریب، ضرورت مند کو صدقہ، زکوٰۃ یہ سمجھ کر نہ دیجئے کہ آپ اس کی دنیا سنوار رہے ہیں بلکہ یہ سمجھ کر دیجئے کہ وہ آپ کی آخرت سنوار رہا ہے۔

(نوٹ)بہت اچھی، اُمید افزا خبر ہے کہ تھرکول سے 330میگاواٹ بجلی پیدا ہونے لگی ہے۔ ہمارے نہایت قابل سابق سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان جب چین میں 2000ء کے اوائل میں سفیر تھے انھوں نے ایک چینی کمپنی سے یہ طے کر لیا تھا کہ0 .539 ڈالر فی کلو واٹ بجلی تھرکول سے پیدا کی جائیگی اور 2010تک ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے لگے گی مگر بدقسمتی سے اس کو سبوتاژ کر دیا گیا ،اگر وہ معاہدہ ہو گیا ہوتا تو ہم یقیناً 2000میگا واٹ بجلی حاصل کر رہے ہوتے۔ اس ملک میں نااہلوں کی قسمت جاگتی ہے۔

تازہ ترین