• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نےانوائرمینٹل انجینئرنگ میں گولڈ میڈل لیا تھا، سی ایس ایس کے ذریعے انتظامی پوزیشن حاصل کرکے پاکستان کی خدمت کرنا اس کا خواب تھا جس کی تکمیل کیلئے اس نے 2016ء میں مقابلے کا امتحان دیا، تحریری ٹیسٹ میں738نمبر تھے جو سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والوں میں سے صرف دو سے تین فیصد طلبہ کے ہوتے ہیں لیکن تب اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے انٹرویو کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا کیونکہ اس کے ایک اختیاری مضمون میں صرف 17نمبر آئے تھے۔ اس کا دل ٹوٹ چکا تھا لیکن اسی دوران اس کے گولڈ میڈلسٹ ہونے کی بنیاد پہ اس نے کامن ویلتھ کے اسکالر شپ پہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شامل برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ آج یہی لڑکی ثناء رسول ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بطور لیکچرر خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ وہ اپنے خواب کو بھول چکی تھی لیکن جیو نیوز پہ گزشتہ ہفتے میری تحقیقاتی رپورٹ ٹیلی کاسٹ ہوئی جس میں دستاویزات کی مدد سے بتایا گیا کہ سی ایس ایس کا امتحان لینے والے ادارے فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے منظوری لیے بغیر 2013میں سی ایس ایس امتحان پاس کرنے سے متعلق رول کو تبدیل کیا جس کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ کا مستقبل تاریک ہوگیا۔ ہوا یوں کہ 2013سے قبل سی ایس ایس میں کامیابی کیلئے رول 11دفعہ 1کے تحت لازمی مضامین میں 40فیصد جبکہ اختیاری مضامین میں 33فیصد یا مجموعی طور پہ 50فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی تھا۔ اس طرح اگر کسی طالبعلم کے کسی اختیاری مضمون میں 33فیصد سے کم نمبر بھی ہوتے لیکن مجموعی طور پہ 50فیصد نمبر آ جاتے تو وہ پاس تصور کیا جاتا تھا، اس طرح سینکڑوں طلبہ انٹرویو دینے کے اہل قرار پاتے لیکن ایف پی ایس سی نے انٹرویو لینے کو خواری سمجھتے ہوئے 2013میں چپکے سے تحریری امتحان میں کامیابی کی شرط سے متعلق اس رول کو وفاقی حکومت سے منظوری حاصل کیے بغیر ازخود تبدیل کر دیا۔اس طرح 33فیصد یا 50فیصد میں سے ’’یا‘‘ کا لفظ ہٹا دیا گیا۔ اگر ایف پی ایس سی کے اپنے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس غیر قانونی اقدام کے بعد سی ایس ایس میں کامیابی کی شرح 16فیصد سے کم ہو کر محض 2فیصد رہ گئی تاہم ایف پی ایس سی نے اس کا ملبہ تعلیمی معیار پہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیا، ایف پی ایس سی کی اس سنگین غلطی کا خمیازہ پہلے سے صوبائی کوٹے پہ عمل درآمد نہ کرنے کا شکوہ کرنے والے صوبوں کو بھی بری طرح بھگتنا پڑ رہا ہے کیونکہ رول میں تبدیلی کے بعد صوبوں کیلئے وفاقی بیورو کریسی میں مختص کوٹے کی نشستیں نہ صرف خالی رہ جاتی ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ CSS کا 2017ء کا نتیجہ دیکھا جائے تو سندھ کی 115نشستوں پہ صرف 28امیدوار کامیاب ہوئے، بلوچستان کی 52 نشستوں پہ 5، خیبر پختونخوا کی 58نشستوں پہ 34، گلگت بلتستان اور فاٹا کی 32نشستوں پہ 11امیدوار کامیاب ہو سکے، پنجاب واحد صوبہ ہے جس کی 193نشستوں پہ 225امیدوار کوالیفائی کر سکے تھے۔یہ سارا معاملہ ہمیشہ مخفی ہی رہتا اگر سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والا ایک اور طالبعلم غلام مرتضیٰ قاضی، ثناء رسول اور اس جیسے متاثرہ طلبہ کی آواز نہ بنتا، غلام مرتضیٰ قاضی جب دوسری بارمذکورہ رول کی زد میں آکر ناکامی سے دوچار ہوا تو اس نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ تک ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ایف پی ایس سی میں بیٹھے افسران نے اپنی سنگین غلطی کو چھپانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے پارلیمنٹ تک نہ صرف جھوٹے بیانات دے کر بلکہ سرکاری دستاویزات میں جعلسازی کرکے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں حائل کر دیں۔حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کابینہ کے سامنے جب غلام مرتضیٰ نے پیش ہوکر سارا کچا چٹھا کھولا تو ایف پی ایس سی کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ رول کی تبدیلی کیلئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری لی گئی تھی حالانکہ جس لیٹر کا حوالہ دیا گیا اس میں متعلقہ رول کا ذکر تک نہ تھا جبکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے امتحان پاس کرنے کی اہلیت سمیت کسی بھی بنیادی رول کی تبدیلی کیلئے ایف پی ایس سی کوآئین کے تحت وفاقی کابینہ سے منظوری لینے کی ہدایت کی تھی، یہی نہیں بلکہ ایف پی ایس سی نے نگران حکومت سے بھی غلط بیانی کی اور رول کی تبدیلی کی پرانی تاریخوں میں توثیق کیلئے آرڈیننس جاری کرا لیا حالانکہ نگران حکومت کو بھیجی گئی سمری میں اس رول کا ذکر ہی نہیں کیا گیا تھا۔ آرڈیننس میں بھی رول کی توثیق صرف 2016اور 2017کیلئے کی گئی جبکہ رول 2013کے امتحان سے ہی تبدیل کیا جا چکا تھا۔ وفاقی حکومت، اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اس انتہائی حساس مسئلے کی تمام جزیات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا چاہئے۔ اربابِ اختیار سے یہ بھی گزارش ہے کہ مذکورہ رول میں تبدیلی سے متاثر ہونے والوں بچوں کو پہلے سے متعین معیار کے مطابق جانچ کر انٹرویو کا موقع دیا جائے جس سے نہ صرف ان کی حق تلفی کا ازالہ ہو سکے بلکہ اُن چھوٹے صوبوں کی بھی داد رسی ممکن ہو سکے جو وفاقی بیورو کریسی میں مناسب نمائندگی نہ ہونے پر اکثر وفاق سے ناانصافی اور زیادتی کا شکوہ کرتے ہیں۔

تازہ ترین