• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی درخواست ِ ضمانت منظور کر لی ہے۔ 

سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں چھ ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم انہیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔


قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے میاں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دیرکے وقفے کےبعد دوبارہ آکر فیصلہ سنائیں گے۔

نوازشریف کی طبی بنیاد پرسزا معطلی سے متعلق سماعت کےدوران چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ کیا پاکستان کے کسی اسپتال میں نواز شریف کا علاج ممکن نہیں؟

انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا پاکستان کے کسی اسپتال کے ڈاکٹرز، سہولتیں اور عملہ ایسا ہے کہ وہاں نواز شریف کا علاج ہوسکے؟

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نوازشریف کے علاج کیلئے ضمانت چاہتے ہیں، ہم پاکستان میں کسی بھی اسپتال میں نواز شریف کے علاج کا حکم جاری کر دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں نوازشریف کی طبی بنیاد پر سزا معطلی سے متعلق سماعت کے دوران نواز شریف کےوکیل خواجہ حارث کی جانب سے نوازشریف کے معالج ڈاکٹر لارنس کے خط کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ ان کی جانب سے لکھے گئے خط کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، یہ خط شواہد کے طور پر کیسے پیش ہوسکتا ہے؟ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ہمارے سامنے کچھ نہیں، کیا ہم ایک خط پر انحصار کرلیں؟

خواجہ حارث نے کہا کہ میں اس خط پر انحصار نہیں کر رہا، نوازشریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا،یہ ڈاکٹر نوازشریف کا علاج کرتا رہا ہے،یہ اس کا مصدقہ خط ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر پٹیشن واپس لے لی تھی۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کیونکہ نوازشریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا، ان کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے 5 میڈیکل بورڈ بنے، پانچوں میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو اسپتال داخل کرانے کی سفارش کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیکل بورڈز نے سفارش کی کہ نوازشریف کو علاج کی ضرورت ہے، 30 جنوری کو پی آئی سی بورڈ نے بڑے میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی، میڈیکل بورڈ نے ایک سے زائد بیماریوں کےعلاج کی سہولت والے اسپتال میں داخلے کا کہا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پروفیسر زبیر نے نوازشریف کی انجیوگرافی کو ماہرامراض گردہ کی کلیئرنس سے مشروط کیا ہے، ان کی ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن کی مانیٹرنگ کی بھی ضرورت ہے، نوازشریف کی نئی رپورٹ کے مطابق بھی ان کے گردوں کا مسئلہ بڑھ گیا ہے۔

خواجہ حارث نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانچوں میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو اسپتال داخل کرانے کی سفارش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے گردوں کی بیماری تیسرے مرحلے میں ہے، اگلے مرحلے پر ڈائیلائسز اور اس سے اگلے مرحلے پر گردے فیل ہو سکتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ثبوت ہے کہ نواز شریف کی بیماری تیسرے مرحلے میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ڈاکٹر لارنس کے خط کے ذریعے آپ طبی بنیادوں پر کیس بنا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی طبیعت خراب ہو گئی ہے، ان کی بیماری کے ثبوت میں ایک خط پیش کیا جا رہا ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مریض 15 سال سے بیمار ہے، آپ کی بنیاد ہے کہ نوازشریف کی صحت اب خراب ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے بیماری کے دوران بہت مصروف زندگی گزاری، 24 دسمبر 2018ء کو نوازشریف کی گرفتاری ہوئی، آپ کا سارا زور ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کوئی ڈاکٹر لارنس ہے بھی یا نہیں؟ کرمنل کیس میں خط پر اس قدر انحصار کیوں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ نوازشریف کی سابقہ اور موجود میڈیکل ہسٹری بتائیں، رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوازشریف کو دل کا عارضہ ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نوازشریف کی جان کو خطرہ ہے؟ بتائیں نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری سے صورتحال کیسے مختلف ہے، صحت کیسے بگڑ رہی ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں، انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تمام بورڈ ز نے کہا ہے کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی 24 گھنٹے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، ان کو کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہے، ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیںہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر جان کو خطرہ نہیں تو میڈیکل بورڈ انجیوگرافی کا کیوں کہہ رہے ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نواز شریف کو ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال منتقل کرتے رہے، کسی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ انہوں نے علاج کرانے سے انکار کیا ۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب کے سارے ملزم بیمار کیوں ہوجاتے ہیں؟ نیب کے ہرکیس میں ملزم کی بیماری کا معاملہ سامنے آجاتا ہے، نیب اتنے ارب روپے ریکور کرتا ہے، ایک اچھا اسپتال ہی بنالے۔

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ نیب ملزمان کو ذہنی دباؤ زیادہ دیتا ہے، نیب کے رویے کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے لگ گئے ہیں، ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین