• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجیب الرحمٰن صدیقی

 ہر سال دنیا بھر میں یکم اپریل کو لوگوں سے عملی مذاق کرکے یا جھوٹ بول کر’’اپریل فول‘‘ منایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا دن ہے، پھراس کے ساتھ مختلف تاریخی واقعات بھی جوڑدیئے جاتے ہیں، بہرحال، حقیقت جو بھی ہو،کم از کم کسی مسلمان کو اپریل فول منانے سے پہلےیہ بات سوچنی چاہیے کہ کیا محض ہنسی مذاق کے نام پر جھوٹ بولنا درست ہے؟بعض لوگ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ تفریحِ طبع کے لیے وقتی طور پر ہنسی مذاق کرلینے میں کیا حرج ہے۔ تو ایسے ہی افراد سے متعلق نبی کریم صل اللہ عليہ وسلم كکا فرمان ہے ”اس شخص كکے ليے تباہی ہے، جو كکلام کرتے وقت لوگوں كکو ہنسانے کے ليے جھوٹ بولتا ہے، اس کے ليے ہلاکت و تباہی ہے، پھر اس كکے ليے ہلاکت و تباہی ہے۔“ (ابوداؤد، نسائی) جھوٹ بول کر دوسروں کو عملاً پریشان کرنا شریعتِ اسلامی کے صریحاً خلاف ہے۔ اس حوالے سے حدیث مبارکہ ؐ میں ہے۔ ترجمہ: ’’سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنّت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے اور گناہ جہنم کی آگ کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) جب کہ ایک اور حدیث مبارک میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ترجمہ:’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتاہے، تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے، تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے، تو خیانت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) چوں کہ اس دن جھوٹ کی بنیاد پر دوسروں کے بارے میں بعض غلط اور لغو باتیں بھی پھیلا دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی عزت تک خاک میں مل جاتی ہے،تو ایسا کوئی عمل مذاقاً بھی کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ چاہے کوئی بھی ہو، بے وقوف، بے وقوف ہی رہے گا اور عقل مند عقل مند۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ محض ایک دن کے لیے کوئی شخص فول قرار پائے اور کوئی بہت دانش وَر۔

یہ اپریل فول ہے کیا بلا، اسے کیوں منایا جاتا ہے؟ اس سلسلے میں نہ تو مورخین یقین سےکچھ بتاسکتے ہیں، نہ ہی راویان نے کوئی رہنمائی کی ہے۔ تاہم، سب سے مضبوط تاریخی روایت کے مطابق اس کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی۔ روایت کے مطابق، اسپین پر جب عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا، تو مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا۔ آئے روز قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوتا۔ بالآخر تھک ہار کر بادشاہ فرڈینینڈ نے عام اعلان کروایا کہ ’’یہاں مسلمانوں کی جان محفوظ نہیں، ہم نے انہیں ایک اور اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے، جو مسلمان وہاں جانا چاہیں، ان کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے، جو انہیں اسلامی سرزمین پر چھوڑ آئے گا۔‘‘ حکومت کے اس اعلان پر مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اسلامی ملک جانے کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔ جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچا، تو فرڈینینڈ کے فوجی اہلکار بحری جہاز میں بارود کے ذریعے سوراخ کرکے وہاں سے بھاگ نکلے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور فرڈینینڈکو اس شرارت پر خوب داد و تحسین سے نوازا گیا۔ وہ یکم اپریل کا دن تھا، جو آج تک مغربی دنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد کے طور پر منایا جاتا ہے،مگر اصل افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرقی ممالک میں بھی یکم اپریل کو ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری ہے، اور یہ سلسلہ صرف یار دوستوں ہی تک محدود نہیں بلکہ بسا اوقات معاملہ آگے بڑھ کر سرکاری اداروں تک بھی پہنچ جاتا ہے اور مختلف اہم سرکاری اداروں مثلاً پولیس، فائر بریگیڈ یا بم ڈسپوزل اسکواڈ وغیرہ کو بھی بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ یا کسی ائرلائن، ٹرین، دفاتر وغیرہ میں بم رکھنے کی جھوٹی اطلاع پھیلادی جاتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم اس درخت کی آب یاری کب تک کرتے رہیں گے، جو غیروں کا لگایا ہوا ہے؟

بعض لوگ اپنے قومی وَرثے سے متعلق تو یہ کہہ کر ناک سکیڑ لیتے ہیں کہ ’’ارے، چھوڑو، دقیانوسی باتیں ہیں۔‘‘ تو ذرا یہ تو بتائیے کہ یہ اپریل فول کیا، کس زمانے کی چیز ہے۔ اور اس بے سروپا، بلکہ بے مقصد اور نقصان دہ روایت کو کس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ ذرا سوچیے۔ ویسےہماری رائے میں تو جب ایک ایسا دن منایا جاسکتا ہے، جس کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی، تو ایک ایسا دن بھی ضرور ہونا چاہیے، جس میں بے وقوفوں کو عقل مند بنانے کی کچھ سعی و جدوجہد کی جائے۔

تازہ ترین