• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہو ر میں صرف مغلیہ دور کے محلات اور مساجد ہی تعمیراتی شاہکا ر نہیں ہیں بلکہ یہاں کی جامعہ پنجاب بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جامعہ پنجاب یا یونیورسٹی آف پنجاب ، پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے اور برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں قائم ہونے والی پہلی جامعہ ہے، جو 1882ء میں قائم ہوئی۔ یہ پاکستان کے ثقافتی مرکز لاہور میں واقع ہے۔ پہلے اس کا کیمپس قدیمی مال روڈ اور انارکلی بازار کے ساتھ ہی تھا۔ 1970ء کی دہائی میں اس کے بہت سے شعبے نیو کیمپس میں منتقل ہو گئے۔ نیو کیمپس کے اردگرد لاہور کے نئے علاقے بن گئے، جو اب شہر کا حصہ ہیں جیسے گارڈن ٹاؤن، فیصل ٹاؤن وغیرہ۔ اب جامعہ پنجاب نے اپنا کیمپس گوجرانوالہ میں بھی کھول لیا ہے اور دوسرے شہروں کے لیے بھی منصوبے زیرِ غور ہیں۔ لاہور کے پرانے کیمپس کو علامہ اقبال کیمپس اور نئے کیمپس کو قائدِاعظم کیمپس کہا جاتا ہے، جو ان کے سرکاری نام ہیں۔ جامعہ کا ایک ذیلی کیمپس خانس پور کے پہاڑی علاقے میں بھی قائم ہے لیکن یہاں کوئی شعبہ مستقل بنیادوں پر قائم نہیں ہے۔ ان چار کیمپسز کے ساتھ جامعہ پنجاب کے 13 کلیات(فیکلٹیز)،9کالج اور64شعبے ہیں جبکہ اس کے الحاق شدہ کالجوں کی تعداد434ہے۔ جامعہ میں اساتذہ کی تعداد700سے زائد اور طلباء کی تعداد تقریباً 30ہزارہے۔

گوتھک اور اینگلو مغل فن تعمیر کی عکاس ان عمارتوں نے لاہور کو اُس وقت کا ایک جدید شہر بنادیا تھا۔ انگریزوں کے عہد میں تعمیر ہونے والی خوبصورت عمارتوں میں شامل پنجاب یونیورسٹی ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے قیام کا سہرا یہاں کے عوام کے سر باندھا جاتاہے، جنہوں نے اظہار رائے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ترسیل کے لئے یہاں تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیا۔

14اکتوبر1882ء کو پنجاب یونیورسٹی پہلی مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ قانونی طور پر تسلیم کی گئی اور ایک مجلس انتظامیہ قائم ہوئی، جسے سینٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی عمارت، جسے یونیورسٹی ہال بھی کہا جاتا ہے، برصغیر کے معروف ڈیزائنر بھائی رام سنگھ کی ڈیزائن کردہ ہے۔ یونیورسٹی ہال اینگلو مغل فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے۔ سرخ اینٹوں سے مزین بلندو بالا عمارت اور کلاک ٹاور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اینگلو مغل طرز تعمیر کا بہترین نمونہ کہلائی جانے والی یہ عمارت مختلف سائز کے کئی گنبدوں پر مشتمل ہے، جس میں مغلیہ فن تعمیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے البتہ عمارت کے سامنے والے حصوں میں تعمیر کیے جانے والے برآمدے انگریز فن تعمیر کے عکاس ہیں۔

1942ء میں یہاں بیچلرز اور1955ء میں ماسٹرز کلاسوں کا اجراء ہوا جبکہ2003ء میں یہاں ڈاکٹریٹ پروگرام شروع کیا گیا۔2004ء میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت اس کے زیراہتمام چھ شعبہ جات کام کر رہے ہیں اور ہر شعبہ تین ڈگری پروگرام کروارہا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ ہال1876ء میں تعمیر ہوا۔ یہ ہال پنجاب یونیورسٹی کے اعلیٰ ارکان کے اجلاس کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے انتظامی اجلاس یہاں منعقد ہوتے تھے اور اب بھی اعلیٰ سطح کےاجلاس یہیں منعقد کئے جاتے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد یونیورسٹی لائبریری میں اور بھی توسیع کی گئی، جس کے بعد سر منوہر لال کے کتب خانے کی2154کتابیں اور پروفیسر برج نرائن کی 2380کتب، سر گنگا رام کی5000کتابیں ، مولوی محبوب عالم کی6500کتب ، حکیم عبدالمجید عتیقی کی1800کتب یونیورسٹی لائبریری منتقل کر دی گئیں۔

پروفیسر محمد اقبال کی فلسفہ الہٰیات اور مذہب پر1713کتابیں ، میاں احمد شفیع کی 1113کتب اور پروفیسر ایم جی سنگھ کی 2000کتب کے مجموعے اس لائبریری کو حاصل ہوئے۔ علاوہ ازیں حافظ محمود شیرانی کی1700قلمی کتب کا نہایت قابل قدر ذخیرہ بھی لائبریری میں منتقل ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کی قدیم عمارت کے باہر مال روڈ پر ڈاکٹر الفریڈ کوپر وولنر کا مجسمہ نصب ہے۔ الفریڈ وولنر1928ءسے 1936ء تک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔

جامعہ پنجاب کی سینٹ کا پہلا اجلاس شملہ (موجودہ بھارت) میں ہوا، جس میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ برطانوی ہند کی چوتھی جامعہ تھی مگر پہلی تین صرف امتحان لیتی تھیں جبکہ جامعہ پنجاب نہ صرف امتحانات لیتی تھی بلکہ تعلیم بھی فراہم کرتی تھی، یعنی جامعہ پنجاب بجا طور پر برصغیر کی پہلی ایسی یونیورسٹی تھی جہاں باقاعدہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس سے پہلے ممبئی (سابقہ بمبئی)، مدراس اور کلکتہ میں جامعات تھیں۔ یہ ہند کے مسلمان علاقوں کی پہلی جامعہ بھی تھی۔

تازہ ترین