تحریر: ناہید رندھاوا…لندن A person wearing a suit and tie smiling at the camera Description automatically generated ’’نیوزی لینڈ آپ کے ساتھ سوگوار ہے، ہم ایک ہیں اور نفرت کے خلاف متحد ہیں‘‘یہ الفاظ ہی ہیں جو وزیر اعظم نیوزی لینڈ جانسڈا آرڈن نے ادا کئے اور ابلتے زخموں کو قرار آگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ جمعہ کے روز نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشت گردی کی جو وحشت ناک تصویر سامنے آئی اسکا شکار ہونے والے شہری تمام کے تمام مسلمان تھے اور انکی مساجد پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا اور اس درندے سفید فام پرنٹن ٹرینٹ نے اسے براہ راست بھی نشر کیا۔ زخم بہت بڑا تھا لیکن کیوی وزیرِ اعظم جانسڈا آرڈرن ماتمی کپڑے اور دوپٹہ اوڑھ کرمیدان میں اتر آئی اور اپنے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں کے دکھ درد سمیٹنا شروع کئے۔ نیوزی لینڈ پورے کا پورا ہی غم اور سوگ کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا۔ ہر نیوزی لینڈ کے شہری نے اس سانحے کو اپنا سانحہ مانا اور جم کر مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور نفرت اور اسلامو فوبیا کی اس شدید شکل کی پر زور الفاظ میں مذمت کی گئی، خواتین اور مردوں نے نیوزی لینڈ کی قدیم رسم ’’ہاکا‘‘ کا بھرپور اور بار بار مظاہرہ کیا، جسکا مقصد یہ تھا کہ نیوزی لینڈ کی تمام کمیونٹی متحد ہے اور دہشت گردی کے اس عمل سے سخت بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کرتی ہے ہمدردی کے اس سارے عمل میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جانسڈا آرڈرن نے مثبت قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کہا کہ مرنے والے انکے اپنے شہری ہیں جو امیگرنٹس تھے لیکن اس ملک کا نہ ٹوٹنے والا حصہ تھے جبکہ دہشت گردی کی واردات کرنے والے سفاک کا نام بھی نہیں لیا جائےگا اسی روز ملزم گرفتار ہوا اور انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کردیا گیا جبکہ خودکار اسلحے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، یہی اقدامات ہوتے ہیں جو کسی قوم اسکی قیادت کے عزم کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔ سانحہ نیوزی لیںد کو گزرے ایک ہفتہ بیت گیا ہے لیکن کیوی وزیر اعظم اور انکی قوم کو یہ غم بھلائے نہیں بھول پا رہا ہے۔ شاید مسلمانوں کو یا یوں کہنا چاہئے کہ متاثرینِ سانحہ کے زخموں پر مرہم کا پھایا رکھتے رکھتے وہ خود بھی آبدیدہ ہو جاتی ہیں اور ساتھ میں لواحقین کو جس انداز میں ماتمی لباس میں گلے لگا کر انکے آنسو پونچھ رہی ہیں تو اس سے غمزدہ لوگوں کو تسلی اور قرار مل جاتا ہے، یہی وہ عمل اور یہی الفاظ ہیں جو شاید دنیا کبھی بھی بھلا نہ سکے۔ وہ اپنا غم بھول جائیں گے لیکن وزیر اعظم کا سلوک اور اسکے الفاظ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں تلاوتِ قرآن مجید ہوئی جسے براہ راست نشر کیا گیا جبکہ جمعہ کی اذان بھی سرکاری ریڈیو اور ٹی وی سے براہ راست نشر کی گئی۔ یہ اطلاعات یہاں دہرانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وزیر اعظم جانسڈا کا عمل یہ ثابت کر رہا ہے کہ قیادت چاہے تو بڑے سے بڑے سانحے کو کمزوری بننے کے بجائے اپنی طاقت میں بدل سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف نیوزی لینڈ میں پوری قوم بلا لحاظِ رنگ و نسل و مذہب متحد ہے بلکہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک بھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سب کا عزم یہ ہے کہ نفرت کو اپنے درمیان جگہ نہیں دینگے اور متحد ہو کر نفرت کے بیج بونے والوں کے عزائم ناکام بنائیں گے۔وزیرِ اعظم جانسڈا کے الفاظ ہی ہیں جو انہوں نے ادا کئے اور آج اتنے بڑے سانحے کو قومی سطح پر ایک نئے عزم اور ولولے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ اور ہاں یہ بات کہ بچوں کا درد ماں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے اور جانسڈا تو وہ وزیر اعظم ماں ہیں جنہوں نے پاکستان کی مرحومہ وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی طرح دورانِ اقتدار ہی بچے کو جنم دے کر واضح کر دیا کہ جب خواتین بر سرٍ اقتدار ہوں تو وہ حقیقی ماں کی طرح قوم کی محافظ بن جاتی ہیں اور اپنے بچوں کی طرح انہیں اپنے گلے لگاتی ہیں اور پھر یہ بات تو سب کو معلوم ہی ہے کہ جب ماں گلے لگاتی ہے تو درد کی گہرائی مرہم کی چاشنی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔۔ مجھے معلوم نہیں کی کیوی وزیراعظم کو کب اور کیسے احادیث یاد ہوئیں لیکں انہوں نے جمعے کے روز اپنی تقریر میں حدیثوں کا عربی میں حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ پیغمبرِ اسلام کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘ اور واقعی یہ بہت بڑی حقیقیت ہے۔ سانحہ نیوزی لینڈ نے غم کو نفرت یا بدلہ لینے کے عمل میں تبدیل کرنے کے بجائے مسلمانوں میں حوصلے اور عزم کا نیا جوش پیدا کر دیا، ان کا کہنا ہے کہ ان کے دل ٹوٹے ہیں لیکن وہ نہیں ٹوٹے، وہ زندہ ہیں متحد ہیں ثابت قدم ہیں اور کسی کو اپنے اندر پھوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دینگے۔ انکا خیال ہے کہ اگرچہ زخم بہت گہرا تھا لیکن اب لوگ یہ سوچیں گے اس پر کیسا ردِ عمل دیں تاکہ معاشرے پر منفی اثرات مرتب نہ ہو سکیں اور نیوزی لیںڈ کے اس سانحے سے لوگوں کو بجا طور پر توقع ہوگی کہ نیوزی لینڈ پہلے سے بھی زیادہ دنیا کو کیسےفائدہ پہنچائےگا۔ نیوزی لینڈ کے اس سانحے کے بعد سے اب تک مساجد اور دیگر مقامات پر ہونے والی عبادت میں دیگر مذاہب کے لوگ اظہارِ یکجہتی کیلئے شریک ہوتے ہیں اور بالکل بھی نہیں لگتا کہ یہ صرف مسلمانوں کی عبادت ہو رہی ہے۔ وزیراعظم جانسڈا آرڈن ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ تو نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اب دہشت گردی، اسلاموفوبیا اور نفرت نہیں بلکہ پیار محبت بھائی چارہ اخوت اور اتحاد ہی اس دنیا کا مقدر ہوگا۔