• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی منافعے کی منتقلی، استحصالی طاقتوں کا نیا ہتھکنڈا

نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم، جیسنڈا آرڈرن نےسانحۂ کرائسٹ چرچ کے متاثرہ مسلمانوں سے اظہارِ یک جہتی کر کے نہ صرف دہشت گردوں کے منہ پر طمانچا رسید کیا، بلکہ دُنیا کو یہ سبق بھی دیا کہ پُر امن بقائے باہمی کے اصول اور مسرّتوں کی منصفانہ تقسیم کے بغیر کُرۂ ارض پر انسانیت کی بقا ممکن نہیں۔ کیوی وزیرِ اعظم سے قبل یہی درس نیلسن منڈیلا نے بھی دیا تھا۔ تاہم، پس ماندہ ممالک اور محنت کَشوں کا استحصال روکنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ آج نیو لبرل ازم اپنی پالیسیز کی روشنی میں سیاسی و معاشی تشریحات کرتے ہوئے مُٹّھی بَھر مفاد پسند عناصر کو ترقّی پزیر اقوام کا خون نچوڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ پہلے منڈیوں پر قبضے اور پھر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) اور ہتھیاروں کی فروخت سے خوب منافع کمایا گیا اور جب اس سے بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ہوس ختم نہ ہوئی، تو ٹیلی کام سیکٹر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے جعلی منافعے کی قانونی منتقلی کے ذریعے تیسری دنیا کو زرِ مبادلہ کے ذخائر اور قرضوں کے بُحران میں مبتلا کر کے بے بس کر دیا گیا ۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد کرپشن ہے اور یہ زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کر چُکی ہے۔ تاہم، یہ اُس وقت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کہ جب سرکاری ادارے بھی اس سے محفوظ نہ رہیں۔ دانش وَروں کا ماننا ہے کہ جب سرکاری مشینری اور کاروباری حلقوں میں کرپشن سرایت کر جاتی ہے، تو پھر یہ دونوں ایک دوسرے کے حامی و مددگار بن جاتے ہیں اور اسے ’’کرونی کیپیٹل ازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے سبب پورا معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ آج بد عنوانی میں ڈُوبا کارپوریٹ سیکٹر دُنیا بَھر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، تا کہ ہر مُلک میں اُس کے مَن پسند سیاست دان ہی حکومت بنائیں اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد اُسے ہر قسم کی سہولت فراہم کریں۔ یوں چھوٹے سرمایہ داروں کا وجود مِٹ جاتا ہے اور بڑی بڑی کمپنیز دُنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔ ایک ریاست کا کام سرکاری شعبے کے ذریعے عوام کو ارزاں نرخوں پر سہولتیں فراہم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے محصولات کا نظام تشکیل دیا گیا تھا، جس میں بِلا واسطہ ٹیکسز کی زیادہ اہمیت تھی۔ آج سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک بھی حد سے زاید منافع خوری، سُود، سٹّے بازی اور ٹیکس چوری سے عاجز آ چُکے ہیں اور اس کا اندازہ نوبیل انعام یافتہ امریکی ماہرِ معیشت اور عالمی بینک کے مُشیر، جوزف اسٹگ لِٹز کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کو رحم دل بنانے کے لیے اس کے ساتھ سوشلزم کی شراکت ضروری ہے۔‘‘ کارپوریٹ سیکٹر نے عالمی تجارتی تنظیم کی مدد سے حکومتوں کی مداخلت کم کرنے اور اپنا منافع بڑھانے کے لیے عالم گیریت کو متعارف کروایا، لیکن اب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ بھی تجارت کی اس نوعیت سے بے زار ہو چُکے ہیں اور چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ مزید براں، پاکستان میں نیب سمیت انسدادِ بدعنوانی کے دیگر ادارے بھی بڑے کاروباری اداروں کی اجارہ داری کو تقویّت فراہم کر رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل برازیل میں کرپشن کا ایک بہت بڑا اسکینڈل سامنے آیا، جسے تاریخ میں غیر مُلکی رشوت ستانی کا سب سے بڑا کیس قرار دیا گیا۔ اس کیس میں برازیل کے ایک بہت بڑے صنعت کار، مارسیلو اودے بریچت کو سزا دی گئی۔ جب برازیل میں بے تحاشا کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف ’’آپریشن کار واش‘‘ شروع ہوا، تو پتا چلا کہ اس بدعنوانی میں بریچت کے ساتھ کئی بڑے بڑے سیاست دان اور تیل کی بڑی بڑی کمپنیز کے مالکان بھی شامل ہیں۔ بریچت نے پیٹرو براس کے ساتھ مل کر برازیل کے400سیاست دانوں، 26سیاسی جماعتوں، بیورو کریسی، بینکاروں اور ممتاز وکلاء کو پُرکشش ٹھیکے دیے۔ بعد ازاں، مقدّمے کی کارروائی کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ بریچت سے ایک تہائی سینیٹرز اور نصف ریاستوں کے گورنرز نے رشوت بھی لی۔ اس کی کمپنی نے 60کروڑ ڈالرز رشوت کے طور پر ادا کیے تھے۔ بریچت کو 19جون2015ء کو گرفتار کیا گیا اور 19سال قید کی سزا سُنائی گئی۔ تاہم،بعد ازاں پلی بارگین کے تحت اس کی سزا کم کر کے 7برس کر دی گئی اور اس کی کمپنی نے 2.6ارب ڈالرز جُرمانہ ادا کیا۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بریچت اور پیٹرو براس کک بیکس کے ذریعے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرتے رہے، جس کی مدد سے وہ انتخابات جیت کر اقتدار میں آتے اور بد عنوان سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفّظ فراہم کرتے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں ازبکستان کے سابق صدر کی بیٹی، گلنار کریموف کو ٹیلی کام سیکٹر سے ایک ارب ڈالرز رشوت لینے پر سزا ہوئی۔ علاوہ ازیں، رُوس میں بھی ایک بڑی کمپنی نے رشوت کے ذریعے لائسنس حاصل کرنے کی اپنی غلط کاری کو تسلیم کیا۔ خیال رہے کہ رُوس کی کئی بڑی کمپنیز کی شاخیں پاکستان میں بھی مختلف ناموں سے خدمات انجام دے رہی ہیں اور پاکستانی حُکّام کوان کمپنیز کی کڑی نگرانی کرنا ہو گی، کیوں کہ یہ جعلی طور پر زیادہ منافع دکھا کر اسے ڈالرز کی صورت اپنے مُلک بھیج رہی ہیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے کہ وہ پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

ملٹی نیشنل کمپنیز کے لیے کسی مُلک کا کم زور و ناقص ریگولیٹری سسٹم سازگار ہوتا ہے کہ جس میں ملی بھگت سے غیر قانونی لین دین بہ آسانی ہوتا ہے۔ نیز، جس مُلک میں دستاویزی معیشت نہ ہو، تو وہاں بد عنوانی ہی کا راج ہو گا۔ ٹیکس چوری کیا جائے گا، تعلیم و صحت کی فراہمی کاروبار بن جائے گی اور جہالت عام ہو گی۔ بھارتی حکومت کو جب 50ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا علم ہوا، تو اس نے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کیے اور پاکستان کی موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ آج پوری دُنیا پر مافیاز، نا اہل حکومتوں اور کرپٹ سرمایہ داروں کا غلبہ ہے اور ان کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری جانب جعل سازی کے بڑے بڑے واقعات عالمی میڈیا اور مقامی ذرایع ابلاغ میں زیرِ بحث ہی نہیں آتے۔ گرچہ کرپشن کا تدارک انقلاب ہی میں پوشیدہ ہے، لیکن آج کوئی بھی یہ قدم اُٹھانے پر آمادہ نہیں۔ لہٰذا ،پاکستان میں نیب کو جعلی منافع دکھانے والے کارپوریٹ سیکٹر کو عبرت ناک سزائیں دینا ہوں گی۔

آج پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں61فی صد نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر ہم ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں موجود کروڑوں بے روزگاروں کو شامل نہ بھی کریں، تو ان سطور کی اشاعت تک او ای سی ڈی کے 36رُکن ممالک میں 3کروڑ 20لاکھ بے روزگار موجود ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ماضی کی طرح عارضی بے روزگاری نہیں ہے اور یہ وبا کی طرح معاشرے کے اُن حصّوں کو بھی اپنی زد میں لے رہی ہے، جو ماضی میں خود کو محفوظ خیال کرتے تھے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کارپوریٹ سیکٹر کی ہوس ختم نہ ہوئی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ہیبت ناک اثرات کا تدارک نہ کیا گیا، تو یہ کُرۂ ارض کی آخری صدی ہو گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تمام تر پیش رفت کے باوجود آج معاشرہ خود کو ایسی قوّتوں کے رحم و کرم پر پاتا ہے، جو اس کے قابو سے باہر ہیں۔ پُرانے یقین (انقلاب آئے گا) کی جگہ بے یقینی نے لے لی ہے۔ اب معاشی عوارض سب سے پہلے حُکم ران طبقے اور حکمتِ عملی تیار کرنے والوں کو متاثر کرتے ہیں، جو اپنے نظام کو درپیش شدید مشکلات سے آگاہ ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی تمام تر تباہ کاریوں کو کارل مارکس نے چند سطور میں سمیٹا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر آزاد تجارت کے حامی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس طرح ایک قوم کی قیمت پر دوسری قوم امیر ہو سکتی ہے، تو ہمیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ لوگ یہ سمجھنے سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ایک ہی مُلک میں ایک طبقہ دوسرے طبقے سے کس طرح زیادہ امیر ہو جاتا ہے۔‘‘ بیرونی سرمایہ کاری کے عاشقوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ غیر مُلکی سرمایہ کار ایک طرف غیر مُلکی منی چینجر ہوتے ہیں ،تو دوسری طرف غیر مُلکی انڈسٹری منیجر یا صنعتی اہتمام کار ۔ غیر مُلکی کرنسی کے آنے سے شدید قسم کا مالیاتی عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور اس کا مقامی کرنسی پر بھی شدید دبائو پڑتا ہے۔ یہ مالیاتی عدم توازن اس وقت تک دُور نہیں ہو سکتا کہ جب تک دو طرفہ سرمایہ کاری نہ ہو۔ مثلاً، امریکا کے اندر ہونے والی مجموعی غیر مُلکی سرمایہ کاری اس کی مجموعی بین الاقوامی سرمایہ کاری سے زیادہ ہو ئی، تو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقّی یافتہ ہونے کے باوجود اس کی دیو قامت معیشت درآمدی سرمائے کے دبائو سے دگرگوں ہو گئی ۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ منی لانڈرنگ اور جعلی منافعے کی قانونی منتقلی کی روک تھام کرے، برآمدات کو درآمدات سے بڑھائے، زراعت کے شعبے میں لائیو اسٹاک کو ترقّی اور فوڈ انڈسٹری کو فروغ دے۔ 

تازہ ترین