• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی میں 31مارچ کے بلدیاتی انتخابات سے قبل، اسے صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی حکومت کی مقبولیت کا ایک کڑا امتحان قرار دیا جا رہا تھا اور اب ان کے حاصل نتائج کی روشنی میں اسے صدر ایردوان اور ان کی جماعت کے لیے ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے میڈیا میں اسے ایردوان کی شکست اور زوال کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ صدر ایردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گزشتہ اور موجودہ بلدیاتی انتخابات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آق پارٹی نے 2009کے بلدیاتی انتخابات میں 38.40 فیصد ووٹ حاصل کئے اور اس کے چار سال بعد 2014 کے بلدیاتی انتخابات میں 43.32فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ اکتیس مارچ 2019کے بلدیاتی انتخابات میں سترہ سال کے طویل اقتدار کے بعد بھی اپنے ووٹوں میں اضافہ کرتے ہوئے 44.32فیصد ووٹ حاصل کئے۔ دیکھا جائے تو دنیا میں جہاں جہاں ڈیموکریسی موجود ہے وہاں پر کوئی بھی جماعت اتنا طویل عرصہ برسرِ اقتدار رہنے کےبعد اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یعنی ترکی کی آق پارٹی نے سولہ سال کے طویل اقتدار کے بعد بھی اپنے ووٹوں میں اضافہ کرتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

اگرچہ ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں دارالحکومت انقرہ(جہاں پر گزشتہ 25برسوں سے دائیں بازو کی جماعت جس میں سولہ سال آق پارٹی کا عرصہ بھی شامل ہے) میں دائیں بازو ہی کی جماعت کو میئرشپ حاصل رہی۔ اتنے طویل عرصے کے بعد پہلی بار بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی نے اس شہر کی میئر شپ حاصل کی ہے لیکن بڑی ہی عجیب بات ہے کہ طویل عرصے کے بعد شہر کی میئر شپ حاصل کرنے والی اس جماعت کے نو منتخب میئر ’’منصور یاواش‘‘ دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں یعنی پارٹی بائیں بازو کی ہے لیکن اس کا میئر دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہے اور اسی طرح استنبول جہاں پر ایردوان نے اپنی سیاست کا آغاز بطور میئرکیا تھا( اس وقت سے وہاں پر آق پارٹی ہی نے میئر شپ حاصل کر رکھی تھی) اکتیس مارچ 2019کے بلدیاتی انتخابات بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے امیدوار اکرم امام اولو، جنہوں نے ہمیشہ اپنی سیاست کا محور دائیں بازو کی جماعت ہی کو سمجھا، اس بار بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کے میئر شپ کے امیدوار بن کر کامیابی حاصل کی اور اس طرح بائیں بازو کی اس جماعت نے کامیابی حاصل کرنے کے لئے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کا سہارا لیا جبکہ ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر پر طویل عرصے سے ری پبلکن پیپلز پارٹی نے ہی گرفت قائم کئے رکھی اور اس بار بھی واضح طور پر کامیابی حاصل کی ہے۔

عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے انقرہ اور استنبول جیسے بڑے شہروں کے بلدیاتی اور عام انتخابات میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا رہا اور یہاں سے منتخب ہونے والے میئر شپ کے امیدوار بہت ہی کم مارجن سے جیتتے رہے اور کئی کئی بار گنتی کرنے اور ایک دوسرے کی کامیابی کو چیلنج کرنے کے بعد ہی کامیابی کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس بار بھی میئر شپ کے کامیاب امیدواروں کا اعلان کئے جانے کے باوجود ایک دوسرے کی کامیابی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، جس سے اس بات کی غمازی ہوتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی مقبولیت میں ذرہ بھر بھی کوئی فرق نہیں آیا، تاہم اس بار ان دونوں شہروں میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی میں کردوں کی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی HDPکے ووٹروں کا ہاتھ نمایاں رہا۔ اگرچہ’’اتحادِ ملت‘‘ کے نام سے قائم سیاسی جماعتوں کے اتحاد، جس میں ری پبلکن پیپلزپارٹی اور گڈ پارٹی شامل ہیں، میں بغیر کسی سمجھوتے کے پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی نے پردے کے پیچھے رہ کر اپنے امیدوار کھڑے نہ کرتے ہوئے اس اتحاد کی حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں دونوں اتحادوں کے درمیان سخت مقابلے کے نتیجے میں ری پبلکن پیپلزپارٹی کے میئر شپ کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان دونوں شہروں میں سولہ سال سے برسر اقتدارجسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے ووٹوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا گیا تاہم اس بار ری پبلکن کی اسٹرٹیجی کامیاب رہی۔

آق پارٹی اگرچہ ترکی کے پہلے تین بڑوں شہروں میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی لیکن اس کے باوجود اس نے سولہ بڑے شہروں میں میئرشپ حاصل کر لی اور سب سے اہم بات جنوب مشرقی اناطولیہ اور مشرقی اناطولیہ جہاں پر کردوں کو اکثریت حاصل ہے اور ان علاقوں سے ہمیشہ ہی HDPکو اکثریت حاصل رہی ہے۔ آق پارٹی نے پہلی بار کامیابی حاصل کی۔ استنبول اور انقرہ جیسے شہروں میں اگرچہ ری پبلکن پیپلزپارٹی کے میئرز کے لئے کام کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ان دونوں شہروں کے علاقائی مجلس میں آق پارٹی کو بڑی واضح اکثریت حاصل ہو چکی ہے اور ان میئر کو مجلس سے بل پاس کروانے اور فنڈز حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا جبکہ اس سے قبل آق پارٹی کی میئرشپ کے دوران دونوں شہروں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کئے گئےاور شہروں کو یورپی شہروں کے ہم پلہ بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی جبکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی کی حاکمیت میں رہنے والے شہر ازمیر جسے بحیرہ ایجین کا موتی کہا جاتا تھا اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا۔

صدر ایردوان کو جماعت کی کامیابی پر عالمی رہنماؤں سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے صدر ایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’دعا ہے کہ ایردوان کی جماعت کا نیا بلدیاتی دور ترک عوام کیلئے مزید استحکام اور خوشحالی کا موجب بنے‘‘۔ جبکہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ترک زبان میں دئیے گئے تہنیتی پیغام میں کہا کہ صدر ایردوان نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی کامیابی عوامی خدمت کے بل بوتے پر حاصل ہوتی ہے اور یہ کامیابی ان کی قیادت پر عوام کے اعتماد کا نتیجہ ہے۔

تازہ ترین