• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لانگ مارچ شروع ہو چکا اور جب بھی لانگ مارچ شروع ہوا کامیاب ہی رہا چاہے اپنے وقت کے مطابق منزل پر پہنچا یا راستے ہی میں روک دیا گیا مگر مقصد حاصل ہو ہی گیا۔ مثالیں بے نظیر کے 1993ء کےMini مارچ کی لے لیں یا نوازشریف کے2009ء کی، درمیان میں چیف جسٹس صاحب کا مارچ بھی ہوا۔2007ء میں سب نے اختتام کامیابی پر ہی کیا۔ آج ہم جس موڑ پر پہنچے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا مگر اس نام نہاد جمہوری نظام کو اتنی لمبی رسی دے دی گئی کہ اب یہ رسی خود نظام چلانے والوں کے گلوں اور گریبانوں پر لپٹ گئی ہے۔ پانچ سال تک ہر شخص جمہوریت کے نام پر بلیک میل ہوتا آیا ہے اور کسی نے اتنی ہمت نہیں دکھائی کہ خود نظام کے اندر جمہوری طریقے سے یا باہر کی قوت استعمال کر کے اس تباہی اور بربادی کو روکنے کی کوشش کرتا۔ مجھے رہ رہ کر اپنے دو مضمون بار بار یاد آتے ہیں جو میں نے اگست24/ اور اگست 29، 2008ء کو لکھے تھے۔ ان پانچ سالوں میں ایک حقیقت ایسی ہے جسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ وہ یہ ہے کہ 2008ء سے اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے اس کی کامیابی یا ناکامی کی ذمہ دار صرف ایک شخصیت ہے اور وہ صدر زرداری ہیں کیونکہ ہر کام ان کے حکم اور ان کی مرضی سے ہوا یا روک دیا گیا۔ جس طرح انہوں نے اس جمہوریت کو چلایا ہے وہ انہی کا خاصا ہے لہٰذا آج اگر ملک ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیا ہے کہ پورے ملک میں دھرنے ہو رہے ہیں اور مطالبہ یہ ہے کہ فوج کو بلایا جائے تو اس کی ذمہ داری زرداری صاحب کو ہی اٹھانی ہو گی۔
میں نے 24/اگست 2008ء کو لکھا تھا ”ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کو یقین ہو چلا ہے کہ مہینوں کے اندر جو طریقہ زرداری نے اپنایا ہے یہ نظام اس جھوٹ، دھوکہ دہی، غداری، مکروہ چالاکیاں اور کرپشن کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گا اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ ان ساری باتوں کو PPP کے خلاف استعمال کرے گی۔ اگر زرداری کو کھلی چھٹی دے دی گئی تو وہ اپنے آپ کو تباہ کر لیں گے“۔ 29/اگست 2008ء کو یعنی صرف 5 دن بعد ایک اور مضمون میں یہ پیرا بھی شامل تھا ”میں نے ایک دوست کی حیثیت میں جناب زرداری کو مشورہ دیا کہ وہ صدر کا انتخاب نہ لڑیں۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ میں نے جواب دیا اس لئے کہ یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے اور آپ کو لوگ اتنی طاقت استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گے، انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو گی اور اس لئے کہ اگر آپ فیل ہو گئے تو آپ پورے جمہوری سسٹم کو لے کر بیٹھ جائینگے“۔ اور اسی مضمون کے آخری جملے یہ تھے ”ملک کی اسٹیبلشمنٹ شش و پنج میں مبتلا ہے اور سوچ رہی ہے کہ کیا عدم مداخلت اور غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی جائے چاہے اس سے ملک کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچ جائے یا حالات کو بالکل قابو سے باہر ہونے سے روکنے کیلئے مداخلت کی جائے۔ زرداری صاحب نے انہیں یہ سوچنے پر بہت جلد ہی مجبور کر دیا ہے“۔
یہ جب میں نے لکھا تو چند ہی دنوں میں فیصلہ ہو گیا کہ فوج غیر جانبدار رہے گی اور مداخلت نہیں کی جائے گی اور پھر زرداری صاحب کا راج شروع ہو گیا۔ کیا ملک کے در و دیوار، کیا بڑی بڑی کمپنیاں، کیا ادارے، کیا عدالت عالیہ، کیا سیاست، کیا ISI، کیا معیشت، کیا جوڑ توڑ، ہر ایک پر ایسے خودکش حملے کئے گئے کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ آج لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا جمہوریت صرف چوری، لوٹ مار، بے غیرتی، بے حسی، بے حیائی، بدکرداری کا ہی نام ہے۔ جب بھی کسی نے حکمرانوں کو ان تمام بدعنوانیوں سے روکنے کی کوشش کی تو فوراً جمہوریت خطرے میں پڑ گئی،کیوں! کیا جمہوریت میں ان تمام برائیوں کو روکنے کا کوئی نظام نہیں ہے اور اگر ہے تو کیوں وہ عمل میں نہیں آ سکا۔ کیا ایک NGO کے سربراہ یا ایک فرقہ اگر اس نظام سے تنگ آ کر یا ظلم اور زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو فوراً گھبرا کر آل پارٹیز کانفرنس بلا لی جاتی ہے مگر ملک میں ہزاروں لوگ خودکش بمباروں کے ہاتھوں شہید ہو گئے مگر ایک ایسی کانفرنس نہیں ہوئی۔ ہماری فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک پر جتنا بڑا ظلم کیا ہے وہ ان چور اور لٹیرے سیاستدانوں سے بڑھ کر ہے اور تاریخ اس فیصلے کو کبھی معاف نہیں کرے گی جو ان لٹیروں کے ٹولے کو کھلی چھٹی دے کر ملک کے ساتھ بلد کار کرنے کی اجازت دینے سے ہوا۔ آج ہم اس حالت میں ہیں کہ بچہ بچہ چیخ رہا ہے کہ فوج کو بلاؤ تاکہ موت اور غریبی اور بے بسی کے مارے عوام کو کوئی بچا سکے۔
آج کا لانگ مارچ جو بھی گل کھلائے گا اس کا ملک پر مجموعی اثر بھیانک ہی ہو گا۔ اگر ان نااہل اور بدعنوان حکمرانوں کو فوج نے ہٹا دیا تو کیا گارنٹی ہے کہ خود فوج اس بری طرح مسخ شدہ ڈھانچے کو سنبھال سکے گی اور ان لٹیروں کو سیاسی شہید بنا کر دوبارہ عوام کا استحصال کرنے کیلئے زندہ نہیں کر دے گی۔ اگر لانگ مارچ فیل ہو گیا تو پھر کیا کوئی ان آدم خور شیروں کو خون کا آخری قطرہ تک پینے سے روک سکے گا۔ کیا اب ہر جنازہ سڑک پر رکھ کر ماتم کیا جائے گا ورنہ کوئی سننے والا نہیں ہو گا۔ کوئٹہ میں دھرنا ہوا، وہ دل ہلا دینے والا ہی نہیں ہے، وہ یہ پیغام بھی دے گیا کہ اب لوگ ایسا ہی احتجاج کریں گے۔ قادری صاحب کا مارچ بھی اگر ایسی ہی کوئی صورت اختیار کر گیا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ حکومتی تیاری تو ایسی ہے جیسے پانی پت کی لڑائی ہونے والی ہے اور لشکر کشائی ہو چکی ہے، خندقیں کھودی جا رہی ہیں، کس بات کا ڈر ہے۔ کیا قادری صاحب ایوان صدر یا اسمبلی کی عمارت پر قبضہ کر لیں گے۔ لیڈر تو پہلے ہی بھاگ چکے اور ریموٹ کنٹرول سے جنگ لڑی جا رہی ہے۔
دل تو ہر لیڈر کا یہی چاہتا تھا جو قادری صاحب نے کر دکھایا۔ مسئلہ صرف فوج کا تھا اور اب یوں لگتا ہے فوج انتظار کر رہی ہے کہ قوم سیاستدانوں سے کسی طرح جان چھڑانے کیلئے دوبارہ بلائے۔ مگر شاید بہت دیر ہو چکی اب ملک میں لوٹنے اور بانٹنے کیلئے کچھ نہیں بچا۔ لٹو تو ہو گیا اب پھٹو رہ گیا ہے جس کا عمل آج کے لانگ مارچ سے شروع ہو گا۔ اب اگر کسی نے ملک کو سنبھالنا ہے تو دو ہی راستے ہیں۔ آئین کو نافذ کرنا ہو گا اور عدالت عالیہ کا ہاتھ سر پر ہونا ضروری ہے۔ دوسرا راستہ ہے جو ارب کھرب لوٹ کر باہر جا چکے ہیں ان کو واپس لانے کا۔ ٹھوس اور سختی سے انتظام کرنا ہو گا کیونکہ اگر یہ نہ ہوا تو لوگوں میں کوئی بہتری کی امید پیدا نہیں کر سکتا۔ اوگرا کے صادق توقیر ہوں یا ان کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھ سب کو پکڑنا ہو گا۔ میں نے سنا ہے کہ جیسے ہی توقیر واپس آئے گا بہت سے نئے نام ECL پر ڈالے جائیں گے مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر کام کی ذمہ داری ججوں اور عدالت عالیہ پر ڈال دی گئی ہے،کیا کسی اور کی ذمہ داری نہیں۔ کیا بلیک میلنگ کی کوئی حد ہے،کیا سیاست صرف خود کو بچانے اور اپنی دولت بچانے کے لئے ہی رہ گئی ہے، باقی ادارے کہاں ہیں؟علامہ قادری کا لانگ مارچ اور کوئٹہ کے دھرنے اگر ہمارے اس گندے کنوئیں میں جو دوچار مردہ جانور آ گرے ہیں ،وہ نکال دیں تو سمجھیں بھل صفائی ہو جائے گی، آخر کنواں صاف تو کرنا ہی ہے۔
تازہ ترین