• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم وزیر اعظم عمران خان انٹرا پارٹی صورت حال کی طرف فوری متوجہ ہوں۔ ملک کے عظیم تر مفاد میں پارٹی رہنمائو?ں کو باہمی اختلافات سے بلند ہوکر ملک و قوم کے مفاد میں اپنے اندرونی اور بیرونی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ موجودہ حکومت جن حالات اور اقتصادی صورت حال سے دوچار ہے، اسے قدم قدم پر بہت احتیاط اور ہوش مندی کی ضرورت ہے۔ حکمراں جماعت کا مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونا کسی بھی صورت مناسب نہیں۔ حکمراں جماعت کے دو انتہائی اہم رہنما ذاتی اختلافات کے باعث آمنے سامنے آگئے ،جن میں کھلے عام لفظی جنگ ہوئی جس سے رہنمائوں کے اختلافات کھل کر قوم کے سامنے آنے لگے ہیں۔ موجودہ ملکی حالات میںجبکہ بھارت ہر لمحہ جارحیت پر آمادہ ہے اور وہ مسلسل سرحد پر بلا جواز اشتعال انگیزی کر رہا ہے۔ بھارت کسی کی شہ پر یا اپنی نادانی کے باعث صرف الیکشن جیتنے کے حربے کے طور پر ہر روزکوئی نہ کوئی واردات سرحد پر کر رہا ہے۔ شکرہےاس سے وطن عزیز کو اتنا نقصان نہیں ہو رہا جس قدر نقصان بھارتی افواج کا ہو رہا ہے۔ سپہ سالار پاکستان نے جیسے کہا تھا کہ اگر بھارت ہمارا ایک نقصان کرے گا تو جوابی کارروائی میں ہم اس کا تین گنا نقصان کریں گے اور اب تک ایسا ہو بھی رہا ہے۔

حکمراں جماعت کو پے در پے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ دنوں بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوئے جو کسی وجہ سے موخر ہوگئے تھے، اب ایک بار پھر نئی تیاری کے ساتھ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔آئی ایم ایف اپنے مفادکی خاطراپنےقرض خواہوں کی ہر حرکت پر گہری نظر رکھتا ہے وہ ہر معاملہ جس سے آمدنی کی امیدہو پر خصوصی توجہ رکھتا ہے اور اپنےذرائع آمدنی کو مضبوط تر رکھنے کے لئے ایسی شرائط لاگو کرتا ہے کہ اس کی رقم جو وہ امداد کے نام پر فراہم کرتا ہے محفوظ رہے۔ ایک ایسے نازک موقع پر جب پیکیج اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکاہے، پارٹی کے رہنمائوں کا آپے سے باہر ہونا کسی طرح مناسب نہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل تبدیلی کا جو ایجنڈا قوم کو دیا تھا اسےملکی معیشت کے استحکام اورخارجہ و داخلی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اس لئے کہ حکومت ایک نئے پاکستان کی تعمیر و تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ اگر داخلی طور پر حکمرانوں میں اختلافات یونہی برقرار رہے اور وہ ایک دوسرے سے یوں ہی دست و گریباںرہے تو پھر عمران خان کا نئے پاکستان کی تعمیر کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ جبکہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں مشترکہ طور پریہ اعلان کرچکی ہیں کہ وہ حکومت کو پورا موقع دینے کو تیار ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے اور قوم سے کئے گئے اپنےتمام وعدے پورے کرکے دکھائے، لیکن افسوس حکمراںجماعت اپنے ہر وعدے کے خلاف ہی عمل پیرا ہے۔ اسی لئے مخالفین یوٹرن کی بات کرتے نہیں تھکتے۔بقول حکومت کے جن خراب حالات میں انہیں حکومت ملی ہےوہ اپنی پوری کوشش کرنے کے باوجود اپنے وعدے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ الیکشن سے قبل تو کسی کو گمان تک نہیں تھا کہ عمران خان صاحب بر سر اقتدار آجائیں گے۔ شاید انہیں خود بھی اتنا یقین نہیں تھا لیکن اللہ کی مہربانی سے وہ کامیاب ہوگئے۔ کچھ دیر کے لئے اگر فرض کرلیا جائے کہ حکومت میاں صاحب کی جماعت کو مل جاتی تو کیا انہیں بھی یوں ہی قدم قدم پر نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا۔

حکمراں جماعت کو بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا ہوگا ،فروعی اختلافات کو ہوا دینے سے مخالفین کو موقع مل جائے گا، ہر کوئی ان کی کمزور کارکردگی پر انگلیاں اٹھائے گا۔ یہ وقت کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا نہیں ہے۔ امن و امان کی صورت حال پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ عوام میں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے جو لاواپکنا شروع ہوگیا ہے وہ بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر کسی وقت متحدہ حزب اختلاف نے اس خراب صورتحال کا فائدہ اٹھانےکی کوشش کی تو حالات کو سنبھالنا حکومت کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ ابھی نیشنل الیکشن پلان پر عمل درآمد ہونا بھی باقی ہے۔ آئی ایم ایف سے امدادی پیکیج کا معاملہ بھی ابھی اٹکا ہوا ہے۔ دوسری طرف افواج پاکستان کو بھی ہر لمحہ چوکس اورہوشیار رہنا ہے۔ بھارت ایک موذی دشمن ہے جو کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اگر کہیں امریکہ نے اسے ہلکی سی تھپکی دے دی تو وہ بلا سوچے سمجھے آگ میں کود سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان پوری طرح چوکس اور بھارت کی تمام حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ملکی سلامتی اور بھارتی جنگی جنون کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام اندرونی و بیرونی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔

اگر حکمراں جماعت کے پاس حکومت رہی تب ہی تمام ارکان کابینہ وزیر اور مشیر قائم رہ سکیں گے اور اگر کسی بھی سبب اختلاف کی خلیج کم ہونے یا ختم ہونے کے بجائے یونہی بڑھتی ہی رہے تو سب کچھ خواب بن کر رہ جائے گا۔ یہ ملک میں امن و استحکام لانےاور معاشی ترقی اور انتظامی اداروں کو مضبوط بنانےکا وقت ہے، ضروری ہےکہ قومی یک جہتی کا ثبوت دیا جائے۔ حکمرانوں کو چاہئے کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے تمام سیاسی، عسکری اور عوامی قیادت ایک صف میں آکھڑی ہو۔ قوم سیسہ پلائی دیوار کے مانند افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو، حکمرانوں کو بہت نپے تلے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے اپنی جماعت کے اندرونی بیرونی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا اور داخلی اور خارجہ صورت حال کی نزاکت کا احساس کرنا ہوگا۔ یہی وقت ہے کچھ کر دکھانے کا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے آمین۔

تازہ ترین