• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیمتوں میں اضافہ، حکومت کا دواساز کمپنیوں کیخلاف کریک ڈائون

اسلام آباد(طارق بٹ)سپریم کورٹ نے 2018کےاپنےچھ صفحات پرمحیط دوآرڈرزمیں کہیں بھی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ یاکسی مخصوص اضافے کوطے نہیں کیا۔ لیکن یہ کام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان(ڈریپ)اوروزارتِ صحت کیلئے چھوڑ دیا گیا تھاکہ وہ اس معاملےمیں فیصلہ کریں۔ یہ بات سپریم کورٹ کے 11 نومبر اور 3 اگست 2018 کے آرڈرز کا قریبی جائزہ لیتےہوئےسامنےآئی۔ سپریم کورٹ میں فارما سوٹیکل انڈسٹری کی نمائندگی کرنےوالےایک اہم وکیل نے بھی اس بات کی توثیق کی۔ انھوں نےدونوں آرڈرزکی تفصیلی وضاحت کی لیکن عدالت جانےکےباعث انھوں نےنام ظاہرنہ کرنےکاکہا۔ اسی دوران قیمتوں میں 15فیصد سے200فیصد تک کااضافہ واپس لینےکی وزیراعظم عمران خان کی 72گھنٹےکی ڈیڈلائن بھی ختم ہوچکی ہےاور اضافہ واپس نہیں لیاگیا۔ ڈریپ اور وزارتِ صحت کی جانب سے اختیار کیاگیاموقف دو عدالتی احکامات کےباعث بےبنیاد ہوجاتا ہےکہ ادوایات کی قیمتوں میں اضافہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کیاگیا۔ وکیل نے کہاکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی جانب سے کیاگیاہے، سپریم کورٹ نے اپنےدواحکامات کے ذریعے نہیں کیا۔ اس نمائند ےنےکئی بار وزیر صحت عامر محمودکیانی سےان کاموقف جاننےکیلئےفون کیالیکن انھوں نےکال موصول ہی نہیں کی۔ تاہم وزارتِ صحت کے میڈیا کورڈینیٹرساجدحسین شاہ نےوزیرکی جگہ دی نیوزسےتفصیلاً بات کی۔ ایک سوال کےجواب میں انھوں نےاتفاق کیاکہ سپریم کورٹ نے ادوایات کی قیمتوں میں اضافےکاکوئی حکم نہیں دیا نہ ہی کوئی اضافہ تجویز کیا۔ عدالت نے صرف یہ کہاکہ وزارتِ صحت اور ڈریپ فارماسوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ مل کرقیمتوں پرنظرثانی کریں۔ انھوں نےکہاکہ حکومت نے9فیصد سے 15 فیصد تک اضافےکا کہالیکن کمپنیوں نےکافی زیادہ اضافہ کردیاجوغیرقانونی ہے۔ انھوں نےکہاکہ قیمتوں میں اضافہ واپس لینےکیلئے گزشتہ کچھ دنوں سےایک کریک ڈائون جاری ہے۔ انھوں نےخبردارکیاکہ مقصدکےحصول تک یہ جاری رہےگا۔ کوآرڈینیٹر نے بتایا کہ حکومت نےفارماسوٹیکل کمپنیوں پرزوردیاہےکہ قیمتوں میں اضافہ واپس لیاجائے، لیکن وہ ہدایات کوماننےمیں ناکام رہےہیں، اسی وجہ سے یہ سخت کارروائی کی گئی۔ اس کا نتیجہ مزید سزاکی صورت میں نکلے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ ’’حالیہ کریک ڈائون کے ذریعےوزیراعظم کے آرڈرزنافذ کیے جارہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہاکہ اس وقت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس جاری ہے جس میں اس صورتحال پربحث کی گئی اور صارفین کےحقوق کیلئےایک نیافارمولا تیارکیاجارہات ہے تاکہ ان پربوجھ کم کیاجائے۔ کوآرڈینیٹرنےکہاکہ جب حکومت نے مخصوص ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی اجازت دی ہے تو اسی طرح کچھ 395ادویات کی قیمتوں میں کمی بھی کی تھی، اس پر فارماسوٹیکل کمپنیوں نےعمل نہیں کیا۔ انھوں نے کہاکہ اس طرح کےنفاذ کوہرقیمت پریقینی بنایاجائےگا۔ وکیل نے بتایاکہ کوئی بھی دواساز خودسےقیمت میں اضافہ نہیں کرسکتااور اضافہ صرف ڈریپ ہی کرسکتاہے۔ ’’تاہم چند کیسز میں دواساز کمپنیوں نے قیمتیں بڑھادیں، جو غیر قانونی تھا، اور حکومت پر اس کا الزام دیاگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سی کمپنیوں نے غیرمثالی طورپر قیمتوں میں اضافہ کیا۔‘‘ اٹارنی نےبتایاکہ موجودہ صورتحال کافی دلچسپ ہے، دواساز کمپنیوں نے قیمتوں میں اضافہ کیا اور انھیں بنیادی قیمتوں میں سیٹ کردیااور ڈریپ سےاضافے پرڈریپ سے منظوری لے لی۔ درحقیقت دواسازوں کی جانب سے اضافہ غیرقانونی تھا یہ ان کی جانب سے کیاگیا نہ کہ ڈریپ نے کیا۔ انھوں نے کہاکہ 2013ادوایات کی قیمتوں میں 13فیصد اضافے کی منظوری دی گئی تھی جو اگلے ہی دن حکومت نے ختم کردی۔ تاہم فارماسوٹیکل کمپنیوں نے عدالت کارخ کیا اور سٹے آرڈر لے لیااور اضافے کو برقرار رکھا۔

تازہ ترین