• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر جمہوریت کے نام پر ملک دشمنی اور عوام کُش رویوں کا مظاہرہ دیکھنا ہو تودنیا بھر میں پاکستان سے بہترکوئی مثال نہیں مل سکتی۔یہاں تو جمہوریت کو ہر قسم کے جرائم کے دفاع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگ ووٹ دے کر حق حکمرانی دیتے ہیں تو اقتدار میں آنے والے نام نہاد جمہوریت پسند یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اُن کو حقِ لوٹ مار دے دیا گیا ہے۔یہ جمہوری بہروپیے ملکی خزانے کو اپنا ذاتی مال سمجھ بیٹھتے ہیں اور قوم کے پیسے کو اپنے اللّوں تللّوں اور کرپشن پر اس بے شرمی سے خرچ کرتے ہیں کہ جس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ریاستی اور حکومتی اداروں کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے اور میرٹ اور قوائد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے چہیتوں کو اہم عہدوں سے نوازتے ہیں۔ حکومتی نوکریوں کی کھلے عام بندر بانٹ کی جاتی ہے اور بہت سے کیسوں میں یہ نوکریاں پیسہ لے کر دی جاتی ہیں۔ کوئی اگر اعتراض کرے تو جمہوریت کا نام لے کر اعتراض کرنے والوں کو چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی ڈھٹائی اور بے شرمی کی کوئی حد نہیں۔ اگر عدالت بھی ان بہروپیوں کے کارناموں پر انگلی اُٹھائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمارا احتساب تو صرف عوام کر سکتے ہیں۔ یہ بھی بحث کی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے کچھ غلط کیا تو الیکشن میں ووٹ نہ دے کرلوگ اُن کو سزا دے دیں گے۔ جبکہ انتخابات میں دھاندلی روکنے اور اصلاحات نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی۔ عوام کے نام پر پاکستان پر مسلط ان بہروپیوں کو اللہ کا خوف ہے نہ مرنے کا ڈر۔ اگر کوئی ڈر اور خوف ہوتا تو ہر طرف قتل و غارت، لوٹ مار، دہشتگردی اور آگ و خون کا یہ کھیل نہ کھیلا جا رہا ہوتا جس کا آج کے پاکستان کو سامنا ہے۔ بے حسی اور انسان دشمنی کی اگر کوئی مثال دیکھنی ہے تو دیکھیں کوئٹہ اور کراچی میں کیا ہو رہا ہے۔ کوئٹہ میں ایک سو سے زائدافراد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا دیا جاتا ہے مگر صوبے کے وزیر اعلٰی یا کابینہ کے کسی بھی ایک رکن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مصیبت زدہ مظلوم عوام کی بے بسی کا حال دیکھیں کہ ہزار وں لوگ 80 سے زیادہ لاشوں کو بیچ سڑک میں رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں کہ شائد کسی کو شرم آ جائے۔ مگر پھر بھی صوبائی وزیراعلیٰ اور وززراء کی فوج میں سے کسی ایک نے بھی تین دن سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود احتجاج کرانے والوں رابطہ تک نہ کیا۔کچھ ایسی ہی بے حسی کا رویہ پہلے 24 گھنٹے وفاقی حکومت نے اپنائے رکھا اور پھر بلا آخر وزیر اعظم کو رحم آیا اور انہوں نے برائے نام کاروائی کرتے ہوئے اپنے ایک وزیر کو کوئٹہ بھیجنے کا اعلان کیا اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو پیغام بھیجا کہ بیرون ملک اپنی چھٹیاں ترک کر کے تھوڑا سا وقت اپنے صوبے کے لیے بھی نکال لیں۔شدید ترین سردی میں تین دن کے بعد بھی مظاہرین کے پختہ عزم کو کسی بھی صورت میں کمزور نہ ہوتا دیکھ کر آخر کار وزیراعظم خود بھی کوئٹہ تو پہنچ گئے مگر مظلوم مظاہرین سے اتوار کو رات گئے تک ان کی طرف سے کوئی برائے راست رابطہ سامنے نہ آیا۔ رئیسانی کی حکومت کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ غیر سنجیدگی کی یہ حالت ہے کہ ایک ایسا صوبہ جو جل رہا ہے اُس کو ایسے وزیراعلیٰ کے حوالے کردیا گیا ہے جس کو دیکھ کر کسی مزاحیہ فلم کے کردار کاتاثر ملتا ہے اور جس کے پاس حکومتی معاملات چلانے کے لیے نہ تو صلاحیت ہے نہ ہی وقت۔ صوبے میں نہ ختم ہونے والی قتل و غارت اور عوام کے جان و مال کے تحفظ میں مکمل ناکامی پر جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ رئیسانی حکومت حق حکمرانی کھو چکی تو وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا اور فرمایا کہ عوامی حکومت کو عدلیہ کیسے رخصت کر سکتی ہے۔اس فیصلے کو غیر جمہوری قرار دے گیامگر آج سب وہی بات کہہ رہے ہیں جو سپریم کورٹ صرف چند ہفتے قبل اپنے فیصلے میں تحریر کی تھی۔کوئٹہ سانحے کے حوالے سے پاکستان کو ساری دنیا میں اِک تما شا بنا دیا گیا ہے مگر مجال ہے کہ کسی نے بحران پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج لگانے یاواقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی سمیت کسی بھی سنجیدہ حل پر کوئی غور کیا ہو یا مظاہرین سے ان کے مطالبات کے حوالے سے دھرنے کی جگہ پر پہنچ کرمذاکرات کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔کراچی کے بد امنی کیس میں عدالت اعظمیٰ نے کہا کے اقتدار میں موجود تینوں سیاسی جماعتوں (پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم) کے عسکری ونگ ہیں جو کراچی میں قتل و غارت کا سبب بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی کے حالات کی بہتری کے لیے کچھ ہدایات بھی جاری کیں مگر جمہوریت کے پیروکاروں نے کسی بھی تجویز پر عمل نہیں کیا۔ بچارے لوگ ہیں کہ مرتے ہی مرتے جا رہے ہیں۔ لوگ چاہے جتنے مریں، حالات چاہے کتنے ہی خراب ہوں، بے شک ملک ہی تباہی کے دھانے تک پہنچ جائے مگرحکمرانوں کو ہر حال میں اپنے پانچ سال پورے کرنے ہیں اور یہی جمہوریت ہے۔ عوام کے نام پر حکومت کرنے والے عوام کے بدترین دشمن بن چکے ہیں ۔ پاکستان کی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کو دیکھ لیں مگر ماسوائے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی نسبتاً بہتر کارکردگی کے ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی طرز سیاست اورطرز حکمرانی کا یہی حال رہا تو جمہوریت یہاں قابل نفرت گالی بن کر رہ جائے گی اور سسٹم تو کیا پاکستان کا مسقتبل ہی خطرہ میں ہو گا۔ اس ملک کے حالات تو پہلے ہی انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی حالت اُس مریض کی سی ہے جسکی صحت یابی کے لیے اُسے انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں بہترین علاج معالجہ کے لیے رکھا جاتا ہے مگر افسوس کہ پاکستان کو علاج کی بجائے نئے سے نئے زخم دیے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین