• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:نواز سلامت…ڈنمارک
کچھ مہینے پہلے میں نے امریکہ کے شہر فلوریڈا جانے کا پروگرام بنایا، ٹکٹ لینے کے قریب ہی تھا کے دل سے آواز آئی کے نہیں مجھے اسرائیل جانا چاہئے\ہر مسیحی کی طرح میرا بھی یہ خواب تھا کہ ایک نہ ایک دن اسرائیل ضرور جاناہے، آنکھیں بند کر کے دس منٹ کے اندر اندر ٹکٹ خریدا اور وہاں اپنے رہنے کا بندوبست کیا ایسے لگ رہا تھا جیسے میں نہیں میرے اندر سے کوئی اور یہ سارے کام جلد از جلد کرتا جا رہا ہے،اب میں اس دن کا انتظا کر رہا تھا جب خدا مجھے اپنے اور دوسرے نبیوں کی سر زمین پر لے کر جائے گا۔اسی دوران میں نے ان مقامات کی ایک لسٹ بنائی جو میں دیکھنا چاہتا تھا، میں نے اس مشکل کام کو آسان کرنے کے لیے  پیدائش اور صولی کے سفر کو ترجیح دی اور دوسرے مقامات اگلےدورہ میں دیکھنے کا فیصلہ کیا۔12 مارچ کو اپنا چھوٹا سا بیگ لیا اور میں ائرپورٹ کی طرف روانہ ہو گیا، ڈنمارک ائرپورٹ پر حسب معمول کوئی دقت اور پریشانی نہیں ہوئی اور جہاز وہاں سے 10 بج کر 30 منٹ پر آسمانوں کی طرف دیکھنے لگا، 3 گھنٹے کے سفر کے بعد ترکی کے شہر استنبول پہنچے، وہاں چار گھنٹوں کا ٹرانزٹ تھا لیکن خدا نے ایک پاکستانی مسیحی بھائی سے ملاقات کرا دی، انٹرنیٹ کی تلاش میں پہلے ہم نے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور پھر دوسرے میں کافی پی، وقت کیسے گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا، میں نے دوسرے بھائی کو خدا حافظ کہا اور اپنے جہاز تک پہنچنے کے لیے گیٹ کی طرف روانہ ہوا، گیٹ پرپہلی بار ایک اضافی سیکورٹی چیک پوائنٹ بنا دیکھا جو صرف اسرائیل جانے والی فلائٹ کے لیے ہوتاہے، سیکورٹی پر تو اتنا ٹائم نہیں لگا لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ 90 فیصد مسافر مسلم تھے اور وہ بھی اسرائیلی پاسپورٹ کے ساتھ، مردوں کو سخت چیکنگ کے بعد مگر عورتوں کو آسانی سے گیٹ تک جانے دیا جا رہا تھا کچھ ہی دیر میں ہم سب بادلوں میں اڑتے ہوئے اسرائیل کی جانب جا رہے تھے، دو گھنٹوں کے بعد ہم اسرائیل کے شہر tel avivاترے، ایرپورٹ بہت خوبصورت اور صاف ستھرا تھا. اسرائیلی شہری بلا تفریق اسپیشل ڈیسک سے دو دو منٹ میں پاسپورٹ سکین کر کے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے گئے لیکن وہ مسافر جو اسرائیلی شہری نہیں اور کسی بھی طریقے سے ان کا کوئی تعلق کسی عرب یا مسلم ملک سے تھا ان کو ایک دوسرے آفس بھیج دیا گیا، میں بھی چپ کر کے وہاں چلا گیا، وہاں پہنچا تو دیکھا کے دو لڑکیاں رو رہی ہیں اور مجھے انہیں نے بتایاکہ انہیں سات گھنٹوں سے بٹھایا ہواہے، میں نے انہیں کو تسلی دی اور دل میں کہا یہ میں اپنے ساتھ نہیں ہونے دوں گا، کچھ ہی منٹوں بعد ایک امیگریشن آفیسر نے مجھے بلایا اور بڑے الٹے پلٹے سوال پوچھے، میں نے صبر اور تحمل سے وہ جواب دیے جو میرے خیال میں وہ سننا چاہتی تھی، یہ انٹرویو کوئی پندرہ منٹ کا تھا، پھر آکر ویٹنگ روم میں بیٹھ گیا، کچھ دوسرے لوگوں کو تسلیاں بھی دے رہا تھا کے ایک سیکورٹی افسر نے انٹرویو کے لیے بلا لیا. اس کو بھی میٹھے میٹھے جواب دئیے اور دس منٹ میں جان چھڑائی اور اس کو میں نے مذاق میں کہا کہ باہر لوگ رو رہے ہیں اورمجھے امید ہے کے مجھے بھی رونا نہیں پڑے گا، اس نے قہقہہ لگایا اور کہا نو مسٹر نواز، کچھ منٹوں میں آپ کو ویزا کارڈ مل جائے گا اور ایسا ہی ہوا، میں نے سامان اٹھایا اور اپنی منزل یروشلم کی طرف روانہ ہوا، رات کا 1 بج چکا تھا جب میں اس جگہ آیا جہاں تین دن رہنا تھا، جاتے ہی بس نظریں بستر پر پڑی اور میں سو گیا، صبح جلدی اٹھ کر چائے کا ایک کپ پیا پھر قریبی مارکیٹ میں ایک جگہ ڈھونڈ کر اسرائیلی ناشتہ کیا اور وہاں سے اپنے ڈرائیور کو فون کیا جس نے مجھے بیت الحم لے کر جانا تھا، ڈرائیور ایک فلسطینی مسلم بھائی حسین تھا جو اسرائیل کا رہائشی اور پچھلے 37 سال سے ٹورسٹس کو مختلف مقامات پر لے کر جاتا تھا، چلتا پھرتا اسرائیل کا گوگل تھا، اس نے سفر سے پہلے بتایا کے بیت الحم فلیسطینی سائیڈ پر ہے اور کچھ اور ضروری باتیں بتائی. کچھ 1 گھنٹے کے بعد ہم چرچ آف نیٹی ویٹی سیوع مسیح کی پیدائش کے مقام پر پہنچے، وہاں چرچ گریک، کیتھولک اور آرمینین حصوں میں تقسیم ہے لیکن اصل پیدائش کی جگہ گریکی چرچ کی بیسمنٹ میں ہے، کوئی دو گھنٹے بعد لائن میں کھڑے رہنے کے بعد میں وہ خوش نصیب تھا جو داؤد کے شہر میں چرنی کے مقام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا, لوگوں کے رش کی وجہ سے بس کچھ ہی منٹ ملے دعا کی، اس لمحے کو آنکھوں میں بند کیا اور وہاں سے نکل کر ایک مقامی دوکان میں گئے جہاں قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی تھی لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں وہاں سے اپنے پیاروں کے لیے بنا کچھ لیے آگے بڑھتا، اپنے بچوں، ان کی پیاری ماں اور اپنی فیملی اور کچھ دوستوں کے لیے تحائف خریدے اور وہاں سے واپس یروشلم کیلیے روانہ ہو گئے، اونچے نیچے پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر میں مجھے حسین میرے ڈرائیور نے یروشلم میں اتار دیا. اس کو اس کی اجرت سے زیادہ ہی رقم دی لیکن بد قسمتی سے وہ مطمئن پھر بھی نہیں تھا۔یروشلم میں مجھے ڈرائیور نے نیاولڈ وال جافا گیٹ کے باہر اتارا تھا، میں وہاں سے سیدھا پرانے اسرائیل کی جانب نکلا اور کچھ ہی لمحوں میں ان گلیوں میں گھوم رھا جہاں یسوع مسیح اور ہمارے بہت سے انبیاء اپنے وقت میں گھوما کرتے تھے، پرانا یروشلم شہر چار حصوں میں تقسیم ہے، مسلم، مسیحی، آرمینین اور جیوش، میں سب سے پہلے جیوش ایریا میں گیا، وہاں اس دیوار کے پاس جہاں یہ لوگ اپنے مسیح کے آنے کی دعا کرتے ہیں اس وال کو انگلش میں ویسٹرن وال کہا جاتا ہے،ساتھ ہی وہاں ان کی عبادت گاہ سنیاگاگ کے اندر کچھ لمحات گزارے، وہاں سے میں سیدھا کرسچن ایریا کی جانب روانہ ہوا اور وہ مقام ڈھونڈا جہاں سے یسوع نے اپنی کلوری اٹھا کر ہمارے گناھوں کی خاطر اپنی جان کی قربانی دینے کا سفر شروع کیا تھا، یہ راستہ 12 سٹیشنز کے ساتھ گلگوتھہ کے مقام پر ختم ہوتا ہے جہاں یسوع مسیح نے اپنی جان دی اور دفن ہوئے اور تیسرے دن جی اٹھے. وہاں سب سے پہلے تو وہ مقام دیکھا جہاں یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا اور اس کے بلکل نیچے وہ جگہ جہاں صلیب سے اتار کر کچھ لمحوں کے لیے یسوع کے جسم کو رکھا گیا وہاں بیٹھ کر کچھ وقت دعا میں گزارا اور پھر اس کے بلکل ساتھ ہی وہ مقام تھا جہاں یسوع مسیح کو دفن کیا گیا تھا اور جہاں سے وہ تیسرے دن پھر جی اٹھے تھے، وہاں بھی کچھ لمحے دعا میں گزارے اور رش کی وجہ سے جلد باہر آنا پڑا ، وہاں تصویر بنانا منع تھا تو میں نے بھی اسی رول کو فالو کیا.یاد رکھے آج یہ سب اب ایک چرچ نما بلڈنگ کے نیچے دیکھنے کو ملتا ہے. وہاں کافی وقت گزارنے کے بعد میں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن مسلم ایریا اور کچھ دوسرے مقدس مقامات دیکھنے کا فیصلہ کیا، راستے میں کھانا کھایا اور ایک لمبی واک کے بعد، خوبصورت گلیوں کو دیکھتے ہوئے، گوگل میپ اور کچھ لوگوں کا سہارا لیتے ہوئے میں گھرپہنچ گیا۔دوسرے دن صبح اٹھتے ہی کانوں میں بارش کا شور سنائی دیا، میں نے اپنی دوست کے بھائی کو کہا کہ آج برا موسم ہے اور اس نے کہا ہم اس کو اچھا کہتے ہیں، ہمارے لیے اس کا مطلب خدا کا پیار اور محبت ہے اپنی مخلوق کے لیے، میں نے کہا مطلب تو ہمارے لیے بھی یہی ہے لیکن میں نے بس ایک ٹورسٹ کی نظر رکھتے ھوئے برا کہا تھا، اس نے میری ہاں میں ہاں ملائی اور ناشتہ کے بعد وہ اپنے کالج اور میں پرانے یروشلم جانے کی تیاری میں لگ گیا، روڈ پر چلنے والی ٹریں لی اور کچھ منٹوں بعد دمشق گیٹ پہنچ گیا، سب سے پہلے چھتری لی، پھر کچھ دکانیں دیکھتا ہوا مسجد اقصٰی کی طرف چل پڑا. راستے میں ایک دوکان پر رک گیا، کچھ شاپنگ کی، وہ بھائی بھی فلسطینی مسلم مگر اسرائیل کا رہائشی تھا اور بہت سے پاکستانی لوگوں کو جانتا تھا اور ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا دوست بھی تھا، سیاسی گفتگو ہوئی، اس نے بہت زبردست چائے پلائی، ساتھ ساتھ اپنی تصویریں دکھانے لگا پڑا، عمران خان اور کچھ دوسری پاکستانیوں کے ساتھ، اس نے میرا نمبر لیا اور میں وہاں سے سیدھا مسجد اقصٰی کی جانب نکل پڑا، بارش کی وجہ سے گلیوں میں اتنا پانی تھا کہ میرے موزے اور جوتے گیلے تھے، دل کر رہا تھا واپس گھر جاؤں لیکن کہا اب اپنا ٹارگٹ پورا کیے بنا نہیں جانا. کچھ دیر بعد مسجد دیکھنے کے لیے ایک لمبی قطار میں کھڑا ہو گیا، مسجد کے مقام پرپہنچ کر میں بس خدا کی قدرت اور مسجد بنانے والے کے بارے میں سوچتا رہا اور ایک دم ظہر کی اذان ہو گئی، اسی لمحے اپنے مسلمان دوستوں اور ان کی فیمیلیز کے لیے دعا کی، وہاں کچھ وقت گزارا، مسجد کے اندر نہیں جا سکا کیونکہ وہ صرف مسلمان بہن بھائیوں کے لیے تھا، مسجد کے بلکل عقب میں دو بہت اہم مسیحی مقام دیکھنے کو ملے ایک ماؤنٹ آف آلفز جہاں حقیء، ذکریا اور ملاکی کی آخری آرام گاہیں ہیں، وہی پر باغ گتسمنی میں کچھ وقت گزارا اور ایک مقامی ہوٹل میں ڈنر کے بعد گھر واپس آ گیا۔رات کو میری ڈنمارک واپسی ہے۔ یہ میرا اسرائیل کا پہلا مگرہرگز آخری دورہ نہیں تھا، بہت جلد کچھ دوستوں کے ساتھ یا اکیلے واپسی ہو گی اور باقی مقدس مقامات کی زیارات اور کچھ میوزیم دیکھنا پروگرام کی ترجیح ہو گا۔میرے وہ پاکستانی مسیحی بہن بھائی جو مستقبل میں یہاں آنا چاھتے ہیں ان کو میں یہ نصیحت کروں گا کہ یاد رکھیں اسرائیل ہمارے لیے پاک زمین ضرور ہے مگر یہاں کے لوگ مسیحی نہیں ہیں۔ یہ مسیح کے بارے میں وہ احساسات بھی نہیں رکھتے ہیں، یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی مذہبی بحث نہ کریں ورنہ آپ بہت بڑے مسئلے میں پڑ سکتے ہیں۔
تازہ ترین