• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنائیت کا احساس جاتا رہے تو بیگانگی نمو پا کر نفرت کے ببول کو تناور کر دیا کرتی ہے اور نفرت کی اگلی منزل غصہ اور تشدد ہے۔ دراصل یہ قباحتیں آئین پر عملدرآمد نہ کرنے کا منطقی نتیجہ ہیں کہ آئین ہی وہ عمرانی معاہدہ ہے جو ریاست کے ہر شہری کو بلا تفریق رنگ و نسل، ذات، برادری اور مذہب کے یکساں حقوق فراہم کرنے کا ضامن ہے، ہمیں بہرصورت آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ ہزارہ برادری جیسے پاکستانیوں کو تحفظ بھی ملے اور احساس اپنائیت بھی۔ سانحہ ہزار گنجی کے مقتولین کی میتوں کے ساتھ ہزارہ برادری 4روز سے دھرنا دیئے ہوئے تھی اور پیر کے روز رات گئے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو اور آئی جی پولیس محسن حسن بٹ نے دھرنا دینے والوں سے ملاقات کر کے نہ صرف اُن کے تمام جائز مطالبات تسلیم کئے بلکہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی یقین دہانی کروا کے دھرنا ختم کروایا۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ ’’دشمن افراتفری پھیلا کر چاہتا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو بلیک لسٹ کر دے، ہزارہ برادری پر بے شک ظلم عظیم ہوا، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے، مکمل تحفظ دیں گے‘‘۔ ہزارہ وسطی افغانستان میں بسنے والی اور دری فارسی کی ہزارگی بولی بولنے والی افغانستان کی تیسری بڑی برادری ہے جسے طالبان حکومت کے دور میں پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پناہ لینا پڑی لیکن پاکستان میں بھی ان کو مشق ستم بنانے کا چلن رہا، سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک از خود نوٹس میں ریمارکس دیئے تھے کہ ’’عدالت محسوس کرتی ہے کہ ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے‘‘۔ اب دھرنے میں شریک ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر نوحہ کناں تھیں کہ کوئٹہ میں اتنے دنبے ذبح نہیں ہوئے جتنے ہزارہ قتل ہوئے۔ وزیر مملکت شہریار آفریدی کا خدشہ درست ہے کہ یہ وطن دشمن عناصر کی کارستانیاں ہیں تاہم ان کو روکنا بھی تو ہمارا فرض ہے۔ حکومتی اداروں کو دریں حالات زیادہ فعالیت کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین