• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
پچھلے کچھ دن مغربی افریقہ کے ممالک سینیگال اور گیمبیا میں گزارے۔ وہاں کے دیہاتی اور شہری علاقوں کو دیکھا، دیہاتوں میں بہت غربت ہے، لوگ زندگی گزارنے کیلئے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف صاحب حیثیت لوگ دنیا بھر میں غذائی اجناس ضائع کرتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ زندہ رہنے کیلئے بنیادی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت خوراک ہے۔ خالق حقیقی نے انسانوں کو پیدا کیا تو ان کے رزق کا بھی اہتمام کیا بلکہ اس کو اپنے ذمہ لیا۔ زمین پر کھڑی سرسبز و شاداب فصلیں اور لہلہاتے کھیت اناج، پھل، سبزیوں اور خشک فروٹ کی صورت میں انسانی و حیوانی زندگی کے لئے وٹامنز، کاربو ہائڈریٹس، پروٹینز، منرلز اور دیگر غذائی ضرورتوں کو ہمہ وقت پورا کرنے کیلئے برسر پیکار ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کی جدو جہد اور جملہ جسمانی و ذہنی کاوشوں کا مرکز و محور اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ وہ اسی لئے ہمت اور حوصلہ کے ساتھ یہ محنت کرتا ہے کہ اسے پیٹ بھر کرکھانا میسر ہو۔ اس مقصد کیلئے جان جوکھوں میں ڈالنی پڑے یا اپنے آبائی وطن کو خیر آباد کہنا پڑے تو اس سے بھی وہ گریز نہیں کرتا۔ دینی حوالے سے بھی یہ محنت اور کاوش فرض کفایہ کے درجے میں آتی ہے اور جو کوئی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کررزق حلال کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہوتا اسے اسلامی معاشرہ مستحسن نظروں سے نہیں دیکھتا۔ آج کا دور بظاہر ترقی یافتہ دور ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ترقی کی چکا چوند کے باوجود ابھی بھی ہر انسان کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر روز دنیا میں ایک ارب افراد اپنی بھوک مٹانے میں ناکام رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اُن افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جو خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے جسم و جان کا رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے اور موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں قحط سالی کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جانے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں خوراک کی کمی ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ پاکستان میں چار کروڑ سے زیادہ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ مسئلہ صرف متوسط یا غریب ممالک کا ہی نہیں بلکہ یہ سن کر حیرت ہو گی کہ بڑے بڑے امیر ممالک میں بھی خوراک کی کمی کے مسائل در پیش ہیں۔ امریکہ میں تین کروڑچالیس لاکھ افراد کے پاس مناسب خوراک نہیں۔ برطانیہ میں چالیس لاکھ کے قریب افراد مکمل خوراک تک رسائی نہیں رکھتے۔ یورپ میں چارکروڑ اورتیس لاکھ افراد موزوں خوراک حاصل کرنے سے محروم ہیں۔لیکن لمحہ فکریہ اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اسی زمین پر ایک طرف ایک ارب انسانوں کو پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں جس کی وجہ سے ہر روز بیشمار اموات ہو رہی ہیں۔ لا تعداد مخلوق خدا مناسب خوراک و علاج کے لئے ترس رہی ہے۔لیکن دوسری طرف اقوام متحدہ کے ’’ادارہ برائے خوراک و زراعت‘‘ کے مطابق سالانہ ایک ارب تیس کروڑ ٹن خوراک بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ ضائع کر دی جاتی ہے۔ اگر اس کا تناسب نکالا جائے تو یہ پوری دنیا میں حاصل شدہ کل خوراک کا پچیس سے تیس فیصد حصہ بنتا ہے۔ اسی طرح پھلوں اور سبزیوں کا تیس فیصد حصہ ضائع ہو جا تا ہے۔ مچھلی اور خوردنی تیل کا بیس فیصد حصہ کام میں نہیں لایا جاتا اور بالآخر وہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر اس خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کا اہتمام کر لیا جائے تو ڈیڑھ سے دو ارب انسانوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے یہ کافی ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی ’’ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ تکلیف دہ انکشاف کیا تھا کہ دنیا میں کل حاصل شدہ خوراک کا ایک تہائی حصہ ضائع ہو جاتا ہے جس کی مالیت سات سو پچاس ارب ڈالر بنتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی جاننا چاہئے کہ خوراک کے ضیاع میں وہی ممالک سب سے آگے ہیں جو ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں پچاس فیصد خوراک کوڑا کرکٹ کے طور پر ڈسٹ بنوں میں چلی جاتی ہے۔ ہر سال برطانیہ میں بیس ملین ٹن خوراک کو ضائع کردیا جاتا ہے۔ یورپین ممالک اور جاپان بھی اس حوالے سے کسی سے کم نہیں۔ وہاں بھی خوراک کو بے تحاشا کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یورپ میں تو ایک سو ملین ٹن تک خوراک کوڑے میں ڈال دی جاتی ہے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمات کی باضابطہ تحقیق و جستجو کے بعد منظر عام پر آئے ہیں۔ صورت حال یوں ہے کہ امیر ممالک میں خوراک کے ضیاع کا سبب دولت کی ریل پیل اور امارت ہے۔ لوگوں کے پاس اتنی گنجائش ہے کہ اپنی نازک مزاجی کے پیش نظر، موجود غذا کو موڈ یا مزاج کے مطابق نہ ہونے کی بنا پر کوئی بہانہ بنا کر ضائع کر دیتے ہیں اور تازہ خرید کر کھا لیتے ہیں۔ لیکن غریب ممالک میں غذا کے ضائع ہونے کا سبب وسائل کی کمی بھی ہے۔ خوراک اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے سرد خانوں اور دیگر آلات کی کمی ہے۔ پاکستان، انڈیا اور دیگر ایشیائی ممالک زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے وافر خوراک حاصل کر پاتے ہیں لیکن منڈیوں اور بازاروں میں اس خوراک کو موسمی تغیرات سے محفوظ رکھنے کیلئے مناسب انتظام کی کمی کی وجہ سے بھی بیشمار خوراک برباد ہو جاتی ہے۔ اس طرح امیر لوگوں کی فضول خرچیوں کے ساتھ ساتھ خوراک کے ضیاع کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ اقوام متحدہ اور کچھ نجی تنظیمیں خوراک کے ضیاع کے تدارک کیلئے کوشش تو کرتی رہتی ہیں لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی۔ اس حوالے سے لوگوں میں شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ جس خوراک کو تم بے دردی کے ساتھ ضائع کر رہے ہو اس سے کئی بھوکوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ بحیثیت مسلمان تو ہمیں بہت ہی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ جس قرآن پاک نے ضابطہ حیات کے طور پر ہمیں زندگی کا ڈھنگ سکھایا ہے وہی ہمیں پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ ’’ کھاؤ پیؤ لیکن اسراف نہ کرو، یعنی حد سے نہ بڑھو‘‘ وہ لوگ جو اس دولت کو بیجا طور پر عیاشیوں اور فحاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ خوراک اور دیگر وسائل حیات کو ضائع اور برباد کر تے ہیں، انہیں قرآنی الفاظ میں ’’ مبذرین‘‘ کہا گیا ہے۔ اور یہاں تک فرمایا گیا کہ ’’ بیشک مبذرین شیطان کے بھائی ہیں‘‘ گویا ایسی حرکات و سکنات کا مرتکب شیطان فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے بڑی کون سے وعید یا آگاہی ہو گی جو ہمیں اس ضیاع سے بچنے کیلئے دی جا سکتی ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیں نصیحت کی کہ ’’ اگر تم کسی ندی کے کنارے بھی وضو کر رہے ہو تو وہاں بھی پانی کو ضائع نہیں کرنا‘‘ اس کا وسیع تر مفہوم یہی ہے کہ کسی صورت میں بھی اِن وسائل حیات کو ضائع نہیں ہونے دینا۔ اگر ہم اپنے اندر شعور پیدا کریں اور اپنے گھروں میں خوراک کے ضیاع پر قابو پا لیں تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر دولت اور وسائل بھی ضائع ہوئے۔ اس نقصان کے ساتھ ساتھ نامہ اعمال بھی گناہوں سے بھرا۔ گویا نقصان ہی نقصان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اندر احساس ذمہ داری کے ساتھ انسانی ہمدردی کے جذبات کوبیدار کیا جائے۔ خداداد نعمتوں پر شکر گزاری کابھی یہی ایک خوبصورت سلیقہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کی شروع سے ہی ایسی تربیت کریں کہ وہ خوراک کے ضائع کرنے سے گریز کریں اور اسے گناہ سمجھیں۔ ورنہ موت تو آنی ہی ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے جو لوگ بھوک سے بلک بلک کے مریں شاید ان کو موت کے گھاٹ اتارنے میں بالواسطہ کہیں نہ کہیں ہمارا بھی حصہ ہو۔
تازہ ترین