• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سورج اپنی تمازت سے چمک اٹھا، چلچلاتی دھوپ میں درویش چند لمحے آرام کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گیا۔ ذرا سی آنکھ لگی تو چڑیوں کی چہچاہٹ نے بیدار کیا۔ دروییش نے دیکھا کے درخت کی شاخوں پر چڑیاں ادھر ادھر پھدک رہی ہیں اور چہچہا رہی ہیں۔ بے ساختہ درویش کے منہ سے نکلا، مرجاؤ، مجھے سونے بھی نہیں دیتیں، یہ کہنا تھا کہ ایک ایک کرکے ساری چڑیاں مر گئیں اورنیچے گرنے لگیں۔ درویش گھبرا کر اٹھ کربیٹھ گیا۔ معاملہ کچھ ایسا ہوگیا تھا جس کی طرف اشارہ سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے نوافل سے اپنے رب سے کچھ ایسا تعلق قائم کر لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔ اور اللہ رب العالمین کی تقدیر ان کے قول کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔ اس کی طرف مولانا جلال الدین رومی نے یوں توجہ دلائی ہے۔
گفتہ او گفتہ اللہ بود… گرچہ از حلقوم عبداللہ بُود
یعنی اللہ کے بندے کا قول اللہ تعالیٰ کا فرمان بن کرقضائے الٰہی بن جاتا ہے۔ درویش نے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی اور اس وقت وہ چڑیاں دوبارہ زندہ ہوگئیں اور پھڑ پھڑا کر اڑ کر دوبارہ درخت کی ٹہنیوں پر جا بیٹھیں۔ اس دن سے اس درویش کا نام قتال یعنی قتل کرنیوالا مشہور ہوگیا ان کا پورا نام حضرت سلطان احمد قتال تھا بخارا سے ہجرت کرکے آنے والے یہ سیدزادہ جلال پور پیر والا ضلع ملتان میں آرام کر رہا ہے۔ اس واقعہ کو کئی صدیاں گزر گئیں۔ جلال پور پیر والا تاریخ کے کئی دور گزر گئے۔ کئی حکمران بدلے، کئی نطام بدلے لیکن آج بھی قبر میں لیٹے ہوئے اس مرد درویش، اس بخاری ، ولی کا مل کے مزار کی طرف عوام الناس زیارت کے لئے کھنچے چلے آتے ہیں۔ جلال پور پیر والا میں دو روحانی خاندان ہیں۔ ایک قادری خاندان جس کی بنیاد میرے جد امجد شیخ کامل حضرت خواجہ حافظ فتح محمد قادری رحمة اللہ علیہ نے رکھی اور دوسرا بخاری خاندان جس کے یہاں توسس اول حضرت سلطان احمد قتال رحمة اللہ تھے۔ حضرت سلطان احمد قتال کی اولاد روحانی تربیت اوربیعت کے منسب کو تو چھوڑ چکی ہے لیکن سیاست میں پوری طرح سرگرم ہے۔ اس خاندان کے ماضی قریب کی شخصیت دیوان سید غلام عباس بخاری تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے ہمیشہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ آزادی سے قبل بھی سیاست میں فعال تھے اور مرتے دم تک اسمبلی کی رکنیت ایک کنیز کی طرح ہاتھ باندھے ان کے بنگلے کے سامنے کھڑی رہتی۔ مسلم لیگ ہو یا پیپلزپارٹی کسی پارٹی کوبھی مجال نہ تھی کہ دیوان صاحب ٹکٹ طلب کریں اور وہ حاضر نہ کریں۔ 1977ء انیس سو ستتر کی تحریک نظام مصطفےٰ میں جب لوگ سڑکوں پر گولیاں کھا رہے تھے تو دیوان صاحب پیپلزپارٹی کے قلعے میں محفوظ ہوکر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور مولویوں کو کھری کھری سناتے تھے۔ جیسے ہی بھٹو کو اقتدار سے الگ کیا گیا انہوں نے ذرا دیر نہ لگائی اور بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد میں شامل ہوگئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ انہیں صالحتِ اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی جانچ پڑتال کرنیوالی جماعت اسلامی نے اپنے دامن میں پناہ دی۔ پھر چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ دیوان صاحب کو بنگلہ جو چند مہینے قبل پیپلزپارٹی کے مرکزی قائدین اور وزراء سے آباد تھا اور ان کی مخصوص سرگرمیاں جاری تھیں۔ وہاں پر میاں طفیل محمد اور پروفیسرعبدالغفور احمد کو جلد ہی بیان کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اور دیوان صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے چہروں کو نور اور جگمگا اٹھا تھا، دیوان صاحب بھی جماعت کی خوبیاں بیان کرتے نہ تھکتے ادھر ضیاء الحق نے الیکشن ملتوی کرائے ادھر دیوان غلام عباس بخاری صاحب نے مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے ضیاء الحق سے رابطہ پیدا کرتے اور پھر امیر المومنین کی مجلس شوریٰ کی زینت بن گئے۔ جب تک زندہ رہے اسمبلی کی رکنیت ان کے لئے مسئلہ نہ تھا۔ پیپلزپارٹی سے ٹکت ملنا بھی مشکل نہ تھا اور مسلم لیگ تو تھی ہی ان کے اشارہ و آبرو کی محتاج، ان کی وفات کے بعد ان کے سیاسی وارث اور میرے قابل احترام دوست دیوان سید عاشق حسین بخاری نے اپنے گرامی قدر الامحترم کی سیاسی روایات کو زندہ رکھا۔ انیس سو نوے کے الیکشن میں وہ مسلم لیگ نون کے امیدوار تھے۔ اگلے الیکشن میں جو کہ انیس سو ترانوے میں ہوئے وہ پی پی پی کے امیدوار تھے۔ لیکن ہار گئے۔ اس نشست پر میرے بچپن کے دوست مرحوم ملک مشتاق احمد لانگ کامیاب ہوئے۔ جبکہ انیس و چھیانوے کے الیکشن میں دوبارہ اسی نشست پر عاشق حسین بخاری مسلم لیگ نون کے امیدوار تھے۔ جب میاں صاحبان کو ملک سے باہر جانا پڑا تو عاشق حسین بخاری نے وقتی طور پر سیاست چھوڑنے میں عافیت سمجھی اور سن دو ہزار دو کے الیکشن میں ان کے بھائی قاف لیگ کی طرف سے منتخب ہوئے کیونکہ وہ خود گریجویٹ نہیں تھے۔ جلاوطنی کے عرصہ کے دوران میاں شہباز شریف ہمارے گھر مانچسٹر تشریف لائے تو ایسے بے وفا ارکان کے رویے سے بہت دل برداشتہ تھے اور انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو کبھی بھی گلے نہیں لگائیں گے۔ 2008ء دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں سید عاشق حسین بخاری قاف لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے لیکن آج کل سنا ہے کے قاف لیگ سے ان کے رابطے زیادہ مستحکم نہیں ہیں وہ پی پی پی سے رابطے میں ہیں۔ اور مسلم لیگ نون یا پھر تحریک انصاف میں بھی جاسکتے ہیں۔ یہ ایک جھلک ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال کی عکاس ہے۔ چونکہ میں ایک روحانی خانقاہ سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے بعض حوالے سے خانقاہوں کے نام پر الیکشن لڑنے والے سیاست کاروں کے طرز عمل سے کسی حد تک آگاہ ہوں۔ یہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ اور احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اس سیاسی جماعت میں شمولیت سے اسے شرف بخشا، یہ اپنی نجی محفلوں اور خاندانی نشستوں میں جب آپس میں مختلف پارٹیوں میں رشتہ داروں سے ملتے ہیں تو خوشگوار موڈ میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اب کس پارٹی میں جانے کا ارادہ ہے؟ ایسے لوگ ٹی وی کے ٹاک شوز میں بہت کم آتے ہیں تاکہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف سخت بیان استعمال نہ کرنا پڑے اور آئندہ کے لئے راستہ کھلا رہے۔ ہر جماعت میں ان کے عقیدت مند اور احترام کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں مرحوم خورشید احمد خان کانجو وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔ لندن ائرپورت پر اترے تو لاؤنج میں مرحوم سید حامد رضا گیلانی سے آمنا سامنا ہوگیا۔ گیلانی صاحب کا تعلق اس وقت پی پی پی سے تھا۔ کانجو صاحب گیلانی خاندان کے مرید تھے۔ ائرپورٹ پر انہوں نے حامد رضا گیلانی کے پاؤں کو چھو کر سلام کیا تو سفارتخانے کا عملہ حیران ہوگیا۔ اور دبے لفظوں میں دوبارہ ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا، کانجو صاحب نے کہا کہ میں وزیر تو تھوڑے عرصے کے لئے ہوں لیکن مرید تو ہمیشہ رہوں گا اس لئے احترام نہیں چھوڑ سکتا۔ روحانی خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ موروثی سیاستدان الیکشن کے دنون میں لوگوں کی روحانی حوالے سے ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جگہ جگہ فوت شدہ افراد کے پسماندگان کے گھروں میں جاکر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور دعا کرنے کے ساتھ اپنے بزرگوں کے ساتھ مرحوم کے تعلقات کا تذکر چھیڑ دیتے ہیں۔ اب پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ وہاں سے خبریں آرہی ہیں کہ سیاسی اور روحانی سیاست کار ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ اگر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ میں عمران خان کی متوقع سونامی کی وجہ سے بدلتے سیاسی موسم کے ساتھ ساتھ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے بیس تیس فیصد ممبران بھی سیاسی کھیل سے آؤٹ ہوگئے تو ایک خوشگوار تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہ ہمارے یہ ”سدابہار“ ارکان تو ہیں ہی۔
تازہ ترین