• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طنزومزاح کا لاجواب شاعر اور میرا دوست انور مسعود کہا کرتا ہے کہ یار عطا، اللہ کا شکر ہے کہ ہماراکسان زراعت میں نت نئے تجربوں کی بدولت زیادہ سے زیادہ فصل اٹھاتا ہے اور اسی طرح شاعری کی زرخیز زمین کی بدولت ہمارے ہاں شاعروں کی فصل بھی دن بدن زیادہ ہو رہی ہے انور تو بعض اوقات شاعروں اور خربوزوں کی فصل کا ذکر بھی ایک سانس میں ہی کرتا ہے، شاید اس لئے کہ جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خوبوزہ رنگ بدلتا ہے اسی طرح شاعر بھی دوسروں کی بحروں کا رنگ دیکھ کر اپنی بحروں کا رنگ بھی بدل لیتے ہیں، چنانچہ ان دنوں زیادہ تر شاعری ایک جیسی بحروں ہی میں ہو رہی ہے بلکہ ان میں سے بیشتر میں داخلیت کا رنگ بھی نمایاں ہے، یہ بہت خوبصورت امیجز والی شاعری ہے، نورونگہت میں نہائی ہوئی شاعری! آپ یہ شاعری پڑھتے ہوئے باہر کی بجائے اندر کے وہ مناظر دیکھتے ہیں جو شاعر نے دیکھے ہوتے ہیں اور وہ ان مناظر کے حسن میں آپ کو بھی شریک کرتا ہے، یہ شاعری بیوٹی پارلر سے بن سنور کر آتی ہے اور آنکھیں ان کی ہوکر رہ جاتی ہیں، اس شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ الگ سے پہچانی نہیں جاتی بلکہ بہت سی آوازیں تھوڑے بہت فرق سے اکٹھی ہو کر ایک سمغنی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اسی طرح اس شاعری کی رینج قدرے کم ہے اور یوں اس کا دامن
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لئے
ایسے شعروںسے خالی ہے جن کی رینج ادبی دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہے۔یہ شاعری اپنی تمام تر خوبصورتی اور حسن کے باوجود بار بار پڑھی بھی نہیں جا سکتی، چنانچہ ایک دو دفعہ پڑھنے کے بعد یہ نظروں کے علاوہ حافظے سے بھی محو ہو جاتی ہے، اس وقت چند شعری آوازیں نظر آتی ہیں جو اپنی پہچان کرانے کے مرحلے سے گزر رہی ہیں، ان میں ایک نام تیمور حسن تیمور کا بھی ہے !
تیمور حسن تیمور بلکہ ڈاکٹر تیمور حسن تیمور کہ اس نے پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے اور ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے، بینائی سے محروم ہے، یہ حوالہ دینا میری مجبوری ہے کیونکہ بینائی بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک بینائی وہ بھی ہے جس کے حوالے سے (معذرت کے ساتھ ) میرا ایک شعر ہے ؎
یہ آنکھیں کچھ چھپاتی بھی ہیں مجھ سے
ان آنکھوں سے پرے بھی روشنی ہے
اور ان آنکھوں سے پرے جو روشنی ہے اس تک رسائی کیلئے بینائی ضروری نہیں اور تیمور حسن تیمور اگر بصارت سے محروم ہے تو بعض اوقات اس کی بصیرت اسے وہ مناظر دکھا دیتی ہے جو ہم بصارت والوں سے پردہ کر لیتے ہیں ۔ان سطور سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ کوئی صوفی ہے، وہ صوفی نہیں شاعر ہے اور سچا شاعر ہے اور یاد رکھیں ، صوفی اور سچا شاعر دونوں ان دیکھے مناظر تک رسائی رکھتے ہیں۔میں نے تیمور کے ذکر کے ساتھ اس کے نابینا ہونے کا ذکر اس لئے بھی کیا کہ اس نے اپنی اس محرومی کو اپنی شاعری میں ایکسپلائٹ نہیں کیا، میں نے کچھ دوستوں کو اپنی کسی محرومی کے حوالے سے شعر کہتے ہوئے اپنے قارئین کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے دیکھا ہے، ان کا شعر اپنی جگہ اچھا بھی ہوتا ہے مگر ان کا دکھ اس شعر کی تاثیر میں اضافہ کر دیتا ہے ۔اور تیمورکا دوسرا شعری مجموعہ ’’تیرا کیا بنا؟‘‘ پڑھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ صرف ایک آدھ جگہ اس کی اس محرومی کا ذکر آیا ہے، اس کے علاوہ وہ پوری طرح ’’پراعتماد اور اپنی شاعری پر بھروسہ کرتا نظر آتا ہے۔ ایک اور بات !ہم لوگ اپنی چھوٹی موٹی محرومیوں کی وجہ سے زندگی کو منفی زاویہ نظر سے دیکھنے لگتے ہیں لیکن میں نے تیمور کو ہر جگہ مثبت رویہ اپناتے دیکھا ہے آپ کو اس کی شاعری میں تاریکیاں نظر نہیں آئیں گی،روشنی ہی روشنی دکھائی دے گی، مجھے مثبت رویے بہت پسند ہیں اور تیمور کی شاعری مجھے اس لحاظ سے ہی بہت پسند ہے کہ یہ نابینا شاعر آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو راستہ دکھاتا ہے،
میں نے کالم کے آغاز میں جس بنی سنوری شاعری کا ذکر کیا تھا، تیمور حسن تیمور کی شاعری اس بنائو سنگھار سے محروم ہے، اسکے شعروں میں مجھے استعارہ ، تشبیہ اور اس طرح کا دوسرا شعری میک اپ بہت کم نظر آتا ہے، بلکہ اس کی شاعری ’’پروزیک‘‘ لگتی ہے لیکن اللہ جانے اسکے پاس کیا ہنر ہے کہ یہ شاعری دل میں اترتی چلی جاتی ہے، وہ ایک دفعہ میرے ساتھ قطر کے مشاعرے میں گیا تھا اور اس نے سارا مشاعرہ الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا، یہ کام کئی دوسرے شاعر بھی کرتے ہیں مگر جب ان کا کلام کاغذ پر آتا ہے تو وہ کاغذ کورا کورا سا لگتا ہے ۔
تیمور کے بارے میں ،میں نے کہا کہ اس کے ہاں بصارت سے اپنی محرومی کا ذکر بہت کم آیا ہے ،جہاں آیا ہے اسکی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
مگر اس میں بھی جذبہ ترحم دور دور تک نہیں ہے، بلکہ ایک نہایت مثبت رویہ دکھائی دیتا ہے !
حیرتِ چشم سمٹ آتی ہے لہجے میں تیرے
تیرے لہجے سے میں آنکھوں کا مزا لیتا ہوں
ان کے معصوم تجسس سے میں اکتاتا نہیں
اپنے بچوں کے سوالوں کا مزا لیتا ہوں
اب مجھے دکھ نہیں ہوتا ہے دیے بجھنے سے
اب میں بدست ہوائوں کا مزا لیتا ہوں
یہاںتک پہنچتے پہنچتے مجھے محسوس ہوا کہ تیمور کی شاعری کے حوالے سے میں نے جو تھیسسزسوچا تھا میں اس کے بیان میں ناکام ہو گیا اور جو کہنا تھا وہ کہہ بھی نہ سکا، چنانچہ اپنا اور آپ کا وقت ضائع کرنے کی بجائے آخر میں تیمور کی ایک غزل درج کر رہا ہوں تاکہ میرا اور آپ کا موڈ ٹھیک ہو سکے !
تجھے زندگی کا شعور تھا، تیرا کیا بنا؟
تو خاموش کیوں ہے، مجھے بتا تیرا کیا بنا؟
نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بچھڑ گئے
میں بچھڑ کے تجھ سے بھٹک گیا، تیرا کیا بنا؟
مجھے علم تھا کہ شکست میرا نصیب ہے
تو امیدوار تھا جیت کا، تیرا کیا بنا؟
جو نصیب سے تیری جنگ تھی، وہ میری بھی تھی
میں تو کامیاب نہ ہوسکا، تیرا کیا بنا؟
میں الگ تھا اس لئے مجھ کو اس کی سزا ملی
تو بھی دوسروں سے تھا کچھ جدا، تیرا کیا بنا؟
پس نوشت :تیمور کا ایک اور خوبصورت شعر، جو مجھے بہت پسند ہے چلتے چلتے وہ بھی سن لیں :
اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
تازہ ترین