• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عائشہ ناز

گھر کی آرائش وتذئین ہر خواتین کے ذوق کا آئینہ دار ہوتی ہےکہ وہ اپنے گھر کو کس طرح سجاتی ہیں اور صفائی ستھرائی کے لیے کیا کیا طریقے آزماتی ہیں ۔گھر کی خوبصورتی کے لیے مہنگی چیزوں کا استعمال ہر گز ضروری نہیں ہے ۔آپ سستی چیزوں سے بھی اپنے گھر کو خوبصورت بناسکتی ہیں ۔اس کا تعلق آپ کی سلیقہ مندی سے ہوتاہے ۔کیونکہ مہنگی آرائشی چیزیں بے ڈھنگی طریقے سے استعمال کرنے کی وجہ سے بدنما لگتی ہیں ۔ محض چیزوںکی ترتیب اور ان کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب گھر میں حیران کن تبدیلی لاتا ہے۔ اسی طرح گھر میں کی جانے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں اسے آرام دہ اور با سہولت بنا دیتی ہیں۔ گھر کی سجاوٹ کرتے ہوئے حسن، سادگی اور ترتیب کا دھیان رکھنا لازمی ہے۔ گھر کی سجاوٹ کے لیے وقت، طرز زندگی اور رہن سہن کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، نیز اس کمرے میں رہنے والے کی عمر کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

گھر کے لیے رنگوں کے انتخاب پر خصوصی توجہ دینا چاہیے، گھروں میں کرائے جانے والے رنگوں کے لیے فیشن کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے۔ آج کل ماضی کے مقابلے میں کمروں کی دیواروں پر تیز رنگ کا رحجان بڑھ گیا ہے، تاہم ہلکے رنگوں کے ذریعے چھوٹے کمرے میں بھی کشادگی کا تاثر ملتا ہے۔ جن کے کمرے بڑے اور روشن ہوں، وہاں کمروں کی دیواروں پر نارنجی، گلابی، زرد اور جامنی رنگ کرایا جا سکتا ہے۔ گھر میں اگر ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو، تو وہاں کے لیے ہلکے رنگ مناسب ہیں، مثلًا سفید، آسمانی، آف وائٹ وغیرہ۔ ہلکا ہرا رنگ فرحت بخش احساس دیتا ہے۔ سفید رنگ سے ماحول پاکیزہ لگتا ہے۔ نیلا رنگ ذہن کو راحت بخشتا ہے اور اسٹڈی روم کے لیے ہلکا زرد رنگ مناسب رہتا ہے۔ اگر خواب گاہ یا ڈرائنگ روم کا فرنیچر مٹیالے سیاہ، تیز بسکٹی اور برائون رنگ کا ہو تو پھر دیواروں پر ہلکا یا دھیما رنگ کرانا چاہیے۔

فرش پر ٹائل لگے ہوئے ہیں، تو پھر قالین بچھانے کی ضرورت نہیں، وہاں چھوٹے سے غالیچے کے ٹکڑے کو بھی کمرے کے درمیان میں بچھایا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر خالی فرش برا لگے تو کمرے کے رنگ کی مناسبت سے قالین بچھایا جا سکتا ہے۔ بغیر پھولوں والے سادے قالین سے کمرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ پردوں اور قالین کے رنگوںکا امتزاج دروازوں اور کھڑکیوں کی سجاوٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خواب گاہوں میں تیز رنگوں یا بھڑکتے نقش ونگار والے پردے بے سکونی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر مہمانوں کے کمرے میں فرشی نشست ہو تو نئی طرز کے رنگ برنگے کشن نیا پن پیدا کرسکتے ہیں۔

گھر میں روشنی کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ کمرے روشن محسوس ہوں۔ بتیاں ایسی جگہ نصب کی جائیں، جو گھر یا کمرے کے زیادہ سے زیادہ حصے میں اجالا بکھیریں۔ اس طرح بجلی کی بھی بچت ہوگی اور تنگی کا احساس بھی جاتا رہے گا۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ گھر میں رکھا جانے والا فرنیچر اس کے رقبے کے حساب سے ہو، ورنہ چھوٹا گھر اور بھی تنگ ہو جائے گا۔ اس لیے گھر کی آرائش کرتے وقت چیزوں کی تر تیب اور توازن کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

بڑے ڈرائنگ روم کی لمبی دیواروںپر چوڑی تصاویر یا سینری لگائی جائے، مگر چھوٹے گھروں میں مہمانوں کے بیٹھنے کے کمرے کی دیواروں پر چھوٹی چھوٹی پینٹنگز لگانی چاہئیں۔ گھر کے کونوں میں ان ڈور پودے رکھنے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔کانچ کی خالی بوتلوں کی گردن پر ربن سے بو باندھ کر اس میں منی پلانٹ لگایا جا سکتا ہے۔ مٹی کی صراحی کو رنگ کر آرایشی پھول بھی حسن بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح پرانی چھاج پر سنہرا رنگ کر کے اس کے کناروں پر گوٹا ستارے چپکا کر اسے دیواروں پر ٹانگا جا سکتا ہے۔

گھر کو کھلا، روشن اور ہوادار بنانے میں کھڑکیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف گھر والوں کو تازہ ہوا فراہم کرتی ہیں، بلکہ ان کی صحیح جگہ پر موجودگی گھر کی دیدہ زیبی میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے گھر کی تعمیر کے وقت ان کے محل وقوع کا خیال رکھنا چاہیے۔ پرانے گھر کی کھڑکیوں کو دیدہ زیب پردوں کی آرائش سے نیاحسن بخشا جا سکتا ہے۔

محراب دار کھڑکیاں گھر کی خوب صورتی میں چار چاند لگا دیتی ہیں، اس پر لگائے جانے والے رنگ دار شیشوں سے انہیں نئی جدت دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کھڑکیوں پر بلائنڈز لگوانے کا رواج بھی عام ہے۔ پرانی کھڑکیوں کے جال پر سفید پالش کروا کے ان کو چمک دار بنایا جا سکتا ہے۔ جالیوں کے پرانے میل کچیل کی صفائی کے لیے استعمال شدہ ٹوتھ برش کو سرف کے پانی میںڈبو کر استعمال کریں۔

دروازے اور کھڑکیوں کی صفائی کے لیے سرکے ملے پانی میں چند قطرے لیموں اور کوئی اچھی جراثیم کُش دوا ملائیں، اور کپڑے سے داغ دھبوں کو صاف کریں، دروازے کھڑکیاں چمک اٹھیں گی۔ باورچی خانہ اور غسل خانہ ایسی جگہیں ہیں جو صفائی ستھرائی کے لیے سب سے زیادہ وقت مانگتی ہیں، ذرا سی غفلت اور کثرت استعمال سے جلد آلودہ ہوجاتے ہیں اس لیے ان کی صفائی ستھرائی خصوصی تو جہ کی متقاضی ہوتی ہے۔

پلاسٹک کنٹینرز میں چیزیں رکھنے کی وجہ سے نہ صرف باورچی خانہ صاف ستھرا رہتا ہے، بلکہ ان کو اپنی جگہ پر رکھنے کی عادت کی وجہ سے کھانا پکاتے ہوئے سامان کا پھیلاوا بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح ضروری اشیا ڈبے سے نکال کر واپس اس کی مخصوص جگہ پر رکھ دی جائیں گی۔ باورچی خانے میں اگر الماری نہ ہو تو ریک دیواروں پر لگا کر مسالوں کے ڈبے اور چھوٹے برتن رکھے جا سکتے ہیں۔ باورچی خانہ اگر چھوٹا ہے تو دیوار پر مقناطیسی پٹی لگوا کر اس پر پیالی،چمچ اور چُھریاں وغیرہ لٹکائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ باورچی خانے میں ایگزاسٹ فین سے نہ صرف گرمی اور دھوئیں سے نجات مل جاتی ہے، بلکہ دھوئیں کی نکاسی کے باعث باورچی خانے کی چھت اور دیواریں بھی خراب نہیں ہوتیں۔

تازہ ترین