• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف بی آر نے بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دینے کے اقدامات کرتے ہوئے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے، آئندہ تنخواہ دار طبقے پر سالانہ ٹیکس چھوٹ کی مد 12لاکھ روپے سے کم کر کے 8سے 9لاکھ روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ حکومت چلانے کے لئے سرمایہ یا رقم ناگزیر ہے، جس کے حصول کے لئے حکومتیں مختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں تاہم زیادہ تر انحصار عوام سے ملنے والے ٹیکس پر ہوتا ہے۔ٹیکس ادائیگی ایک قومی فریضہ ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ ملکی دفاع، اندرونی امن یا اس جیسے دیگر امور کا یقینی بنانا ہی کیا ٹیکسوں کی عدم ادائیگی پر نہ صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں نہ انفراسٹرکچر بنایا اور مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اہالیان وطن ٹیکس کی اہمیت سے آگاہ نہیں لیکن وہ اس طرف خوشدلی سے راغب نہیں تو ان کے تحفظات پر بھی غور کرنا لازم ہے، عوام کی اولین شکایت یہ ہے کہ ان کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل کیا جانے والا ٹیکس ان پر استعمال نہیں ہوتا، اسی بداعتمادی کے باعث پاکستان میں ٹیکس کلچر فروغ نہیں پا سکا۔ عوام کی اس شکایت پر مہر تصدیق خود وزیراعظم نے یہ کہہ کر ثبت کر دی کہ ’’پاکستانی خیرات دینے میں بہت آگے اور ٹیکس دینے میں بہت پیچھے ہیں، وجہ حکمرانوں پر عدم اعتماد ہے کہ کرپشن سے ٹیکس کا پیسہ چوری ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقہ ہی ادا کرتا ہے کہ اس کو تنخواہ ملتی ہی ٹیکس کٹنے کے بعد ہے۔ لہٰذا اسی طبقے پر بوجھ بڑھائے جانا ناقابل فہم بھی ہے اور قابل افسوس بھی۔ کون نہیں جانتا کہ بڑے بڑے صنعت کار، جاگیردار حتیٰ کہ سیاستدان اتنا کم ٹیکس ادا کرتے ہیں جوان کے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھتے ہوئے ایک مذاق معلوم ہوتا ہے۔ٹیکس چوری بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ محض تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر حکومت اپنے اہداف حاصل کر لے گی؟ ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا بلکہ ابتری کی راہ کھلتی دکھائی دیتی ہے۔ حکومت اس اقدام سے باز رہے اور ٹیکس سسٹم میں جامع اور منصفانہ اصلاحات لائے۔

تازہ ترین