• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت جہاں کئی دوسرے شعبوں میں اصلاحات کے لئے سرگرم عمل ہے وہاں سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے نوآبادیاتی نظام کا تصور ختم کرکے اہلیت اور مہارت کی حامل یعنی اسپیشلائزڈ بیورو کریسی لانے کے لئے سول سروسز کے ڈھانچے میں اصلاحات پر بھی کام کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس نے اپنی تجاویز غور و خوض کے لئے وفاقی کابینہ کو پیش کر دی ہیں۔ کابینہ کی حتمی منظوری کے بعد ملک کی انتظامی مشینری کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا جائے گا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجوزہ اصلاحات کا مقصد سرکاری ملازمتوں میں کیڈر اور نان کیڈر کی تفریق ختم کرکے تمام ملازمین کے لئے مساوی مواقع مہیا کرنا ہے۔ اصلاحات کے تحت عمومی امتحان کا موجودہ طریق کار ختم کر دیا جائے گا اور سول سروسز میں شمولیت کے لئے امیدوار کی تجزیاتی صلاحیت، اپنے شعبے میں مخصوص معلومات اور موزونیت کا امتحان لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر چار گروپس متعارف کرانے کی تجویز ہے۔ بھرتی کے چار مراحل ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں اسکریننگ ٹیسٹ ہو گا۔ گروپ کی بنیاد پر بھرتی دوسرے مرحلے میں ہو گی۔ ذہنی صلاحیت کاتیسرے مرحلے میں جائزہ لیا جائے گا اس مرحلے میں کامیاب ہونے والوں کا چوتھے مرحلے میں انٹرویو لیا جائے گا تاکہ حتمی انتخاب کیا جا سکے۔ تمام تقرریاں کھلی اور شفاف طریقے کے مطابق اور میرٹ پر ہوں گی۔ کیریئر میں آگے بڑھنے کے مواقع مساوی اور کارکردگی کی بنیاد پر ہوں گے۔ تمام کیڈرز اور نان کیڈرز کے لئے سی ایس ایس کے تصور کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ تمام سرکاری ملازمین کے لئے گزر بسر اور تنخواہوں کا معقول پیکیج ہو گا جس میں ریٹائرمنٹ کے بعد مناسب سہولتوں کی ضمانت بھی شامل ہو گی۔ بتایا گیا ہے کہ کابینہ پہلے ہی اصلاحات کے 6کیسز کی منظوری دے چکی ہے جن میں سرکاری ملازمین کو عہدے کی میعاد کی سیکورٹی بھی حاصل ہو گی۔ عہدے کی میعاد 2 سال ہو گی جس میں کارکردگی کی بنیاد پر 3 سال کی توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ وزیروں کے لئے ٹیکنیکل مشیر بھرتی کئے جا سکیں گے۔ تکنیکی معاملات پر فیصلہ سازی کے لئے 15وزیروں کے پاس تکنیکی معلومات والے مشیر ہوںگے۔ دفتری نظام کے لئے الیکٹرونک فائلنگ سسٹم بنایا جائے گا جس سے کاغذ کا استعمال ختم کیا جا سکے گا۔ سول سروسز کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد ہیں ان کے لئے انتہائی ذہین، قابل، حاضر دماغ بر وقت فیصلے کرنے اور ان پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں قانون سازی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذمے ہوتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ انہیں گڈ گورننس کے تقاضوں کے تحت تمام تکنیکی معاملات پر بھی عبور حاصل ہو ان میں سے جو لوگ ملک کا عملی انتظام و انصرام سنبھالتے ہیں وہ اصولی فیصلے تو کر لیتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کے لئے انہیں متعلقہ شعبے سے متعلق تکنیکی اور فنی باریکیاں جاننے والے قابل معاونین کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے انہیں زیادہ تر سول سروسز یا بیورو کریسی کی مدد درکار ہوتی ہے۔ کئی وزارتیں بالکل ٹیکنیکل نوعیت کی ہوتی ہیں جن کے وزرا کے لئے فنی مشیروں کی معاونت ناگزیر ہے۔ مجوزہ اصلاحات میں جن کا ابھی باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے، ان تمام تقاضوں کو بادی النظر میں ملحوظ رکھا گیا ہے تاہم انہیں حتمی شکل دینے سے پہلے ان پر اچھی طرح غورو فکر اور پیشہ ورانہ مشاورت ضروری ہے۔ اس کے لئے سول سروس کے پیشہ ورانہ اداروں اور تنظیموں اور دوسرے متعلقہ حلقوں سے پیشگی مشاورت کر لینی چاہئے اصلاحاتی ایجنڈے کا یہ نکتہ قابل ستائش ہے کہ سول سروس میں تقرریوں کے لئے میرٹ اور شفافیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گی۔ کوشش ہونا چاہئے کہ سفارش یا اثر ورسوخ کے استعمال کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جائے تاکہ حق حقدار کو ہی ملے۔ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوںگے اور اشرافیہ کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقات کو بھی ملک کی خدمت کا مساوی موقع ملے گا۔

تازہ ترین