• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذہنی امراض کےباعث ہسپتالوں میں داخل ہونےوالےنوجوانوں کی تعدادبڑھ رہی ہے،پبلک ہیلتھ انگلینڈ

لیڈز (ندیم راٹھور )پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی جانب سے جاری حالیہ اعداد وشمار سے منکشف ہوا ہے کہ دماصکی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے ۔ لیڈزشہر میں دو ہزار سترہ اٹھارہ کے درمیان نوے سے زائد بچے مختلف ذہنی امراض کی سنگینی کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل ہوئے ۔ ان بیماریوں میں ڈپریشن ، انگزائٹی، سکٹزوفرینیا، ہائی پولر ڈس آرڈر اور بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈِس آرڈر شامل ہیں ۔ اس تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ ذہنی صحت پہ مامور خیراتی اداروں نے اس افراط کو تشویشناک اور فوری توجہ طلب قرار دیا ہے ۔ اسکی وجہ صحت کے شعبہ میں مالی کٹوتیوں کو قرار دیا ہے۔ سروسز میں کمی کی وجہ سے نوجوان بچے اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لئے مطلوبہ سہولیات سے مستفید نہیں ہو پا رہے ۔ بعض اوقات ان امراض کے باعث ہسپتال جانے سے وہ اپنے دوستوں اور فیملی سے دور ہو سکتے ہیں اسطرح ایک بُری صورت حال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ ری تھنک مینٹل الِنس کی سربراہ لُوسی سکنبیول نے کہا کہ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے یہ مسائل ہم سب کے لئے تشویش ناک ہیں اور حل طلب ہیں ۔ یہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ان وجوہات کا بغور جائزہ لیا جائے جو بچوں کو اس درجہ ذہنی اذیت کا باعث بن رہی ہیں۔ مزید برآں حکومتی اور معاشرتی سطح پہ ان کا سدباب اور تدارک ضروری ہے۔ ہم نے بارہا یہ سُنا ہے کہ نوجوان فوری اور ضروری ذہنی امراض کے سلسلے میں مدد پانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ انکی ذہنی الجھنوں کو یا تو درخوراعتناء نہیں سمجھا جاتا یا پھر انھیں سیکڑوں میل دور جانے کو کہا جاتا ہے کیونکہ انکے قرب وجوار میں تشخیص اور معائنہ کے لئے کوئی اپائٹمنٹ میسر نہیں ہوتی ۔ اس وجہ سے پہلے سے مشکلات کا شکار بچے اور خاندان مزید مسائل کے نرغے میں آجاتے ہیں ۔ ینگ مائنڈز کے ڈائریکٹر ٹام میڈرز نے کہا کہ نوجوان بچوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے ۔ بعض اوقات مشکلات انکی عمر اور برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اسکول میں نامساعد حالات، بُلنگ اور جارحانہ رویے اور مدد کا نہ ہونا جیسے حالات کا خاصا عمل دخل ہے ۔ دماغی مسائل کے اضافے میں گھروں کے ناموافق حالات کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے ۔ گھروں میں لڑائی جھگڑا، ٹوٹے گھرانوں یا پیار سے مُبرا بچوں کے ہاں یہ مسائل کہیں زیادہ ہیں۔ ہمیں ان ناہموار حالات میں ایسے سپیشلسٹ لوگوں کی ضرورت ہے جو تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوان بچوں کو خاطر خواہ علاج اور مدد فراہم کرسکیں۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق ہر دس میں سے ایک بچہ ان ذہنی مشکلات کا شکار ہے۔ ان بچوں میں خود کو نقصان پہنچانے اور جارحانہ رویے اپنانے کا رجحان نمایاں ہوتا ہے۔ ان نفسیاتی بیماریوں کا درست اور جامع علاج نہ کروانا بعض اوقات خطرناک ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مُلک بھر میں دو ہزار سترہ اٹھارہ میں دس ہزار سے زائد نوجوان ان ذہنی نا آسودگیوں کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے جبکہ اس سے پچھلے سال انکی تعداد نو ہزار سے زائد تھی۔

تازہ ترین