• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تہمینہ عباس

علی نے جب سے داد ا ابو سے بونوں کی کہانی سنی تھی اس کو بونے دیکھنے اور ان سے بات کرنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا اور وہ خیالوں ہی خیالوں میں کئی دفعہ ان بونوں سے مل بھی چکا تھا ،مگراس کے باوجود اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ حقیقی زندگی میں ان بونوں سے ملاقات کرے اور دیکھے کہ انجانی دنیا کے چھوٹے چھوٹے آدمی کیسے لگتے ہیں اور ان کا لباس کیسا ہوتا ہے؟وہ اپنے تمام کام کس طرح انجام دیتے ہیں؟کیا وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسی طرح کام انجام دیتے ہیں، جس طرح عام انسان انجام دیتے ہیں؟داد ا ابونے کئی دفعہ علی کو منع کیا تھا کہ بونے صرف کہانی میں ہوتے ہیں، اصل زندگی میں ان کا وجود نہیں ہوتا،مگر علی کا ننھا سا ذہن اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ اسکول سے آتے ہی اس کا ذہن بونوں کی تلاش کے منصوبے بنانے لگتا اس کا دل چاہتا کہ گھر کے قریب موجود جنگل میں نکل جائے اور درخت کی کوہ میں ان بونوں کی تلاش کرے۔

ایک دن گھر میں سب کو سوتا پاکر وہ چپکے سے گھر سے نکل آیا، اسے یقین تھا کہ آج اس کو بونے ضرور مل جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے وہ سیدھا گھنے جنگل میں چلا گیا اور درختوں کی کھوہ میں بونوں کے گھر تلاش کرنے لگا۔ ایک درخت کے پاس اچانک اسے کسی کیانتہائی آہستہ آواز سائی دی ،”کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے؟“علی نے غور کیا تو آواز اس کے پیروں کے قریب سے آرہی تھی، اس نے دیکھا کہ اس کے پیروں سے چندقدم کے فاصلے پر ایک بوڑھا بونا کھڑا ہے، اتنے چھوٹے آدمی کو دیکھ کر ایک لمحے کو علی کو خوف آیا، مگر دوسرے ہی لمحے اسے بے انتہا خوشی ہوئی کہ اس کی بونے سے ملاقات کی خواہش پوری ہوگئی ہے۔

”آپ بونے ہیں نا انکل؟“علی نے معصومیت سے سوال کیا؟ سوال میں اس قدر معصومیت تھی کہ بوڑھا بونا مسکرانے لگا۔

”ہاں میں بونا ہوں اور سینکڑوں سالوں سے اس جگہ آباد ہو ں، مگر آج تک مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ تم بونے ہو؟۔تم اس جگہ کیا کرنے آئے ہو؟میں تمھارے سامنے کبھی نہیں آتا، مگر مجھے لگا کہ تم یہاں کافی دیر سے کوئی چیز تلاش کر رہے ہو،میں نے سوچا کہ تمھاری مدد کردی جائے۔ اے ننھے لڑکے اس لیے میں تمھارے سامنے ظاہر ہوگیا ہوں۔“

”انکل مجھے بونے دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔داد ا نے مجھے آپ کی کہانی سنائی تھی تو مجھے یقین تھا کہ میںآپ سے ضرور مل سکوں گا،مگر میرے دادا کہتے تھے کہ بونوں کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ انھیں ڈھونڈنے کا کوئی فائدہ ہےلیکن میں نے آپ کو ڈھونڈ لیا ہے۔“علی کی خوشی اس کی آواز سے ظاہر ہو رہی تھی۔

”کیاآپ مجھے اپنا گھر دکھائیں گے اور اپنے خاندان کے لوگوں سے ملوائیں گے؟“علی نے ایک اور خواہش کا اظہار کیا تو بوڑھا بونا مسکرانے لگا۔

”بیٹا تم قد میں اتنے بڑے ہو کہ میں تمھیں اپنے گھر نہیں لے جاسکتا ،البتہ اپنی بیوی اور بیٹی سے ملوا سکتا ہوں۔“بونے نے اپنی بیوی اور بیٹی کو آوازدی تو درخت کی کھوہ سے اس کی بیوی اور بیٹی بھی نکل آئیں۔”یہ میری بیٹی ہے عالیہ اور یہ میری بیوی ہے صغراں“

درخت کی کھوہ سے باہر آنے والی بونے قد کی ایک عمر رسیدہ خاتوں اور ایک لڑکی کا تعارف بوڑھے بونے نے کروایا تو علی نے فورا ہی ان سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا،مگر ان لوگوں کے ہاتھ بے حد چھوٹے چھوٹے تھے۔ان کے چھوٹے چھوٹے جوتے اور کپڑے علی کی توجہ اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔کافی دیر ان کے ساتھ رہنے کے باوجود علی کا دل نہیں بھرا تھا ،مگر جب بوڑھے بونے نے علی کو احساس دلایا کہ کافی دیر ہوگئی ہے اب تمھیں اپنے گھر جانا چاہیے۔تمھارے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے اور تمھیں ڈھونڈ رہے ہوں گے۔علی کو بھی ایک دم احساس ہواکہ دادا اسے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔

علی جب اللہ حافظ کہہ کر جانے لگا تو بوڑھے بونے نے اس کو ایک قلم لا کر تحفے میں دیا۔حیرت انگیز طور پر وہ قلم عام انسانوں کے استعمال کا تھا۔بوڑھےبونے نے علی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ ”بیٹا اب آئندہ تم بونوں کی تلاش میں یہاں نہ آنا، ہم آئندہ تمھارے سامنے ظاہر نہیں ہوں گے۔البتہ تمھیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔تم اپنی دنیا میں جاکر خوب دل لگا کر پڑھو اوردوسرے انسانوں کے کام آؤ ، بونوں کی تلاش کے بجائے کوئی ایسا کام کرنا کہ لوگ تمھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔بوڑھے بونے کی نصیحت کو ذہن نشین کرتے ہوئے علی ہنسی خوشی گھر واپس آگیا۔علی۔۔ علی اُٹھو بیٹا اسکول جانا ہے۔ امی کی آواز سن کر علی ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔اچھا تو میں خواب میں بونے سے ملا تھا۔ رات دادا سے کہانی سن کر سو گیا تھا ،اس لیے خواب میں بھی بونا دیکھا ۔ علی نے سوچا اور اسکول جانے کی تیاری کرنے لگا لیکن اس نے فیصلہ کر لیا تھا کے خواب میں بونے نے جو نصیحت کی تھی اس پر ہمیشہ عمل کرے گا۔ 

تازہ ترین