• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلباء کو مستقبل کی جابز کیلئے کس طرح تیار کیا جائے؟

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم میں جدت لانا ناگزیر ہے۔

طلباء کو چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم کا انتخاب کرتے وقت خود سے چند سوالات ضرور کریں:کیا میری تعلیم ’ٹیکنیکل اِسکلز‘(جو بتدریج آٹومیشن اور روبوٹکس کی نذر ہوتےجارہے ہیں) کے ساتھ ساتھ ’سوفٹ اِسکلز‘ بھی دے پائے گی، جو ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے اور ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا؟ کیا میری تعلیم مجھے کیریئر کے لیے تیار کرسکے گی اور جس وقت میں عملی زندگی میں قدم رکھوں گا کیا اس کیریئر کا وجود اس وقت اور آنے والے طویل عرصے تک برقرار رہے گا؟ ان سوالات کے جواب آسان اور سادہ نہیں ہیں۔’دا مونٹریال اے آئی ایتھکس انسٹیٹیوٹ‘ کی جانب سے کام کے مستقبل(فیوچر آف ورک) سے متعلق کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس حوالے سے تعلیم کی ضروریات سمجھنے کے لیے ابھی تک شواہد پر مبنی کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

بے روزگاری کا چیلنج

ایک رپورٹ کے مطابق، امریکا کے 43فیصد کالج گریجویٹس کو ملنے والی پہلی نوکری ان کی تعلیمی صلاحیتوں سے کم تر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک تہائی گریجویٹس کو عملی زندگی کے ابتدائی پانچ سال او ر نصف طلباء کو دس سال بعد بھی اسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ یہ دنیا بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے گریجویٹ ہوکر نکلنے والے طلباء کے پروفیشنل کیریئر کا ایک نمونہ ہے۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں یہ صورتحال ہے تو دیگر ممالک بالخصوص پاکستان میں اس صورتحال کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

مستقبل قریب میں اس صورتحال میں بہتری کی امید رکھنا خام خیالی ہوگی۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق 2022ء تک دنیا بھر میں 75ملین نوکریاں آٹومیشن میں چلی جائیں گی۔ اس دوران عالمی معیشت میں 133ملین نئی نوکریاں پیدا ہونے کی توقع ہے۔ تاہم اس صورتحال سے بے روزگار ہونے والے اکثر افراد، ہنرمندی میں کمی کی وجہ سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ اسے ’اِسکل گیپ‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ مسئلہ اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک اعلیٰ تعلیم دینے والے ادارے، عالمی معیشت کی ضروریات کے مطابق گریجویٹس تیار نہیں کریں گے۔

اعلیٰ تعلیم پر نظرِثانی کی ضرورت

اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں محدود پیمانے پر مثبت تبدیلیاں آنا شروع ہوچکی ہیں۔ چند کامیاب انفرادی اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم کے نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے جدت لائی گئی ہے، جس سے طلباءاور معیشت میں بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

تعلیمی تجربے کی تکثیف

کیریئر میں کامیابی کے لیے روایتی چار سالہ ڈگری کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وسائل یا مواقع نہ ہونے کی وجہ سے کئی طلباء کے لیے چار سالہ پروگرام منتخب کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور اس وجہ سے پیشہ ورانہ زندگی میں ان کی کامیابی کے امکانات، چار سالہ پروگرام منتخب کرنے والے اپنے ہمعصر طلباء کے مقابلے میں کم ہوجاتے ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ امریکا میں کل وقتی چار سالہ پروگرام میں داخل 60فیصد طلباء اپنی ڈگری مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ درحقیقت کئی شعبہ جات کے لیے چار سالہ ڈگری غیر ضروری اور اضافی ہوجاتی ہے۔ یہ بات گریجویٹ اسکولوں، جیسے ’لاء اسکول‘ پر زیادہ صادق آتی ہے، جس کی ڈگری دو سال میں مکمل کی جاسکتی ہے۔ فرانس میں ایک ایسا ہی پروگرام شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت 2018ء میں 10ہزار افراد کو مختصر دورانیے کے بلامعاوضہ ڈیجیٹل ٹریننگ پروگرام کروائے گئے ہیں۔

تعلیمی سند پر نظریں مت جمائیں

ایک رپورٹ کے مطابق 70کی دہائی کے وسط سے لے کر 90کی دہائی کے وسط تک، نوکریوں کی 500مختلف کیٹیگریز کے لیے اوسط تعلیمی سطح میں 1.2سال کا اضافہ ہوا۔ تاہم اسی عرصے کے دوران، ان نوکریوں پر پہلے سے تعینات افراد کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لیے کوئی اضافی تعلیمی قابلیت حاصل نہیں کرنی پڑی۔ لیکن نئے افراد کو وہی کام کرنے کے لیے زیادہ تعلیم حاصل کرنی پڑی اور زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑے۔

اگر تعلیمی ادارے اور آجر کاغذی اسناد پر توجہ دینے کے بجائے ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتے، جن کے ذریعے طلباء عملی زندگی کے لیے بہتر طور پر تیار ہوسکتے تو نوکری کے متلاشی نوجوان یا افراد، اپنی دلچسپی کے شعبہ میں نوکری حاصل کرنے کے لیے مختصر دورانیہ کے مخصوص آن لائن کورس، سرٹیفکیٹ پروگرام اور انٹرپرینیورشپ کی طرف زیادہ آتے۔

42سیلیکون ویلی ایک ایسا ہی جدت پسند اور غیرمنافع بخش انجینئرنگ کالج ہے، جہاں اعلیٰ تعلیم کو مکمل طور پر از سرِ نو ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ کالج نہ تو کاغذی سند پیش کرتا ہےاور نہ ہی اس میں انجینئرنگ کی مخصوص کلاسز ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ طلباء کو پروفیسرز بھی تعلیم نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی تعلیم کا ذمہ خود اُٹھاتے ہیں اور اپنے پراجیکٹس کی گریڈنگ ہمعصر طلباء سے کرواتے ہیں۔

مفادات میں ہم آہنگی

طلباء اور تعلیمی اداروں کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ روایتی ٹیوشن فیس ماڈل کو ختم کرکے اس کی جگہ انکم شیئر ایگریمنٹ (ASI)ماڈل متعارف کرایا جائے۔ ایسے معاہدے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ طلباء جو مہنگی تعلیم برداشت نہیں کرسکتے، وہ بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رُخ کریں گے کیونکہ انھیں تعلیم کے دوران فیس ادا نہیں کرنا ہوگی، البتہ جب وہ تعلیم مکمل کرکے نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو انھیں اپنی تنخواہ میں سے ایک مخصوص حصہ اپنے تعلیمی ادارے کو ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح، تعلیمی ادارہ بھی اپنے ہر ایک طالب علم کی کامیابی کو یقینی بنانے پر محنت کرے گا کیونکہ اس کی آمدنی کا دارومدار پیشہ ورانہ زندگی میں طلباء کی کامیابی پر ہوگا۔

تعلیم اور صنعتی اداروں کا تعاون

مستقبل کے کامیاب طلباء کو تیار کرنے کے لیے تعلیمی اور صنعتی اداروں کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے، اسی میں سب کی جیت ہے۔ اس طرح طلباء کو مینٹورز ملتے اور انٹرن شپس میسر آتی ہیں۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں کو اپنا نصاب معیشت کی ضروریات کے مطابق تبدیل کرنے کا موقع ملتا ہے اور کمپنیوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بہترین ٹیلنٹ تک براہِ راست رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔

پراجیکٹ بیسڈ لرننگ

ماڈرن کیریئر میں وہ لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں، جن میں تخلیقی اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ لینے، لوگوں سے باہمی تعلقات قائم رکھنے، پریزنٹیشن دینے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے یا سلجھانے کی صلاحیت ہو۔ ایک قابلِ قبول دلیل تخلیق کرکے مناسب انداز میں پیش کرنا، درست سوالات کرکے مطلوبہ جوابات حاصل کرنا وغیرہ، یہ وہ صلاحیتیں ہیں، جنھیں کسی بھی روایتی یا ٹیکنیکل تعلیم کے ساتھ سیکھنا لازمی بن چکا ہے۔ کلاس روم میں عملی زندگی کے یہ ہنر پراجیکٹ بیسڈ لرننگ کے ذریعے ہی سیکھے جاسکتے ہیں۔ جب طلباء کو پراجیکٹس خود ہی پلان، ڈیزائن اور ایگزیکیوٹ کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو عملی زندگی کے لیے تیار کررہے ہوتے ہیں۔

سان فرانسسکو کا ’میک اسکول‘ اعلیٰ تعلیم کا ایک ایسا ہی ادارہ ہے، جہاں اپلائیڈ کمپیوٹر سائنس میں اپنی نوعیت کی دو سالہ بیچلرز ڈگری آفر کی جاتی ہے۔ میک اسکول میں طلباء کو جونیئر ڈویلپر کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور انھیں پراجیکٹ بیسڈ لرننگ میں مشغول کیا جاتا ہے جبکہ دیگر نصاب میں لبرل آرٹس، کمپیوٹر سائنس اور کیریکٹر ڈویلپمنٹ کے مضامین شامل ہوتے ہیں۔

تازہ ترین