• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ کوئٹہ کے بعد کیااب سانحہ اسلام آباد کا انتظار ہے؟

کیا حکومت کوئٹہ سانحہ میں دکھائی جانے والی اپنی سردمہری، انسان دشمنی اور بربریت کو اسلام آباد میں دہرانا چاہتی ہے؟ کیا صدر، وزیر اعظم، پیپلز پارٹی اور دوسری برسراقتدار سیاسی جماعتیں اس انتظار میں ہیں کہ علامہ طاہرالقادری کا لانگ مارچ بھی کسی سانحہ کا شکار ہو جائے تو پھر حکومت کچھ کرے؟ کیا اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن بھی علامہ طاہرالقادری سے اپنی نفرت یا اختلاف کی بنیاد پر اپنے آپ اور اس ملک کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے کہ وہ جس طرف جاتے ہیں اُنہیں جانے دیا جائے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ لانگ مارچ میں موجود بچوں، عورتوں اور دوسرے افراد کو شدید سرد موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ کیا میڈیا بھی اس انتظار میں ہے کہ اجتماع میں موجود کوئی بچہ ، عورت یا مرد ٹھٹھر کر مر جائے تو پھر ہم کسی لاش کو لے کر سوئی ہوئی انسانیت کو جگائیں؟ کیا ہم کسی دہشتگرد کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آ کر اس اجتماع میں خودکش دھماکہ کرے؟ کیا اسلام آباد میں ایک اور لال مسجد کی طرز کے آپریشن کا انتظار ہے؟ اس سے پہلے کہ ہم کوئی نئی مصیبت دیکھیں، ذمہ داروں کو چاہیے کہ علامہ طاہرالقادری سے فوری بات چیت کریں اور اس مسئلہ کا کوئی پر امن حل نکالیں۔ علامہ کی جائز باتوں کو مانیں اور ناجائز مطالبات کو رد کر دیں مگر اپنے آپ کو حالات کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہیں۔علامہ نے اپنے مطالبات پیش کر دیے مگر قمر زماں کائرہ نے اپنے جواب میں یہ تاثر دیا کہ علامہ سے بات نہیں ہو سکتی۔ میاں نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے اعلانیہ میں علامہ کے لانگ مارچ کا کوئی ذکر تک نہ کیا مگر اشارتاً علامہ کے مطالبات کو رد کیا ۔
پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں (پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن) کہتی ہیں کہ علامہ کسی غیر ملکی یا غیر جمہوری قوّت کے اشارہ پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور اس سب کا مقصد جمہوری نظام کو کمزور کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو مگر پی پی پی کی وفاقی حکومت اور مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کیا اس بات کا جواب دے سکتی ہے کہ جب ایک شخص نظام کو تہس نہس کرنے کے لیے لانگ مارچ کررہا ہے تو پھر اُسے ایسے احتجاج کی کیوں اجازت دی؟ لاہور والوں نے لانگ مارچ کو اپنے علاقہ سے کیون گزرنے دیا؟ وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کو اسلام آباد میں کیوں داخل ہونے دیا اور پھرپارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پر پڑاوٴ کی بھی اجازت دی؟ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کی حالت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے اور اسی وجہ سے اس اہم سیاسی مظاہرہ سے پہلے مل بیٹھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل طے نہیں کر سکیں۔دونوں جماعتوں کے کچھ لوگ اشاروں کنایوں میں عدلیہ اور فوج کوبھی علامہ قادری کے کھیل کے پیچھے ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ کا کردار سب کے سامنے ہے جبکہ فوج کو بغیر کسی ثبوت کے ایک ایسے موقع پر اس مسئلہ میں گھسیٹنا جب ہندوستان کی فوج ہمارے فوجیوں کو شہید کر رہی ہو انتہائی نامناسب ہو گا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہمارے حکمرانوں نے اپنی کرپشن، بدعنوانی اور نااہل حکمرانی کی وجہ سے بار ہا آرمی کو موقع دیا کہ ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے مگر ایسانہیں کیا گیا جس پر آرمی چیف تعریف کے مستحق ہیں ورنہ اگر کوئی مشرف جیسا ہوتا تو کب کا یہ سارا کھیل ختم ہو چکا ہوتا۔
علامہ کی سازش اور ایجنڈا اپنی جگہ مگر مجھے حیرت ہے کہ کسی بھی حکومتی یا اپوزیشن جماعت نے اس عہد کا اظہار تک نہیں کیاکہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مکمل نفاذ کے لیے کوئی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ علامہ کے کھیل کو ایک طرف رکھ دیں مگر کیا پاکستان کا میڈیا سالوں سے اس بات پر زور نہیں دے رہا کہ باکردار افراد کو ہی پارلیمنٹ میں داخلے کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ میں درجنوں جعلی ڈگری والے شامل تھے اورکچھ شاید اب بھی ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کچھ جعلی ڈگری والے دھوکہ بازوں کو دوبارہ اُن کی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف ٹکٹ دیابلکہ دوبارہ منتخب بھی کیا اور شاید ایسے لوگ آئندہ الیکشن میں دوبارہ منتخب بھی ہو جائیں؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ کے ممبران کی اکثریت نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے؟ کیا ایسے قانون شکنوں اور ٹیکس چوروں کو پارلیمنٹ میں دوبارہ داخلے کی اجازت ملنی چاہیے؟ اگر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل درآمد نہیں کرنا تو چور ڈاکوؤں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ علامہ قادری سے اختلاف اپنی جگہ مگر یہ وہ اہم مطالبہ ہے جس پر ویسے ہی ہر سیاسی پارٹی اور بالخصوص الیکشن کمیشن کوانتہائی سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے تا کہ صاف ستھرے اورایماندار افراد ہی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو سکیں۔
تازہ ترین