• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان لکیر کھنچ چکی ہے!!

پچھلے چند ہفتوں سے ملک میں جاری جمہوری اور غیرجمہوری قوتوں کی کشمکش دیکھ کر مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا، میں اپنی نادانی میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ شاید بصیرت رکھنے والی سیاسی قیادت اور ایک آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے اب اس ملک میں کوئی کسی غیر جمہوری عمل کو سرانجام دینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ مگر پچھلے چند دنوں سے ہر ٹی وی سکرین پر چلنے والے میٹنی شو نے میری ان تمام خواہشات اور امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ان دنوں میں نے سنا کہ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ نہ صرف صادق اور امین نہیں ہیں بلکہ ان کے نامہ اعمال میں اور برائیاں جیسے ٹھیکوں میں پیسے لینا، ٹیکس ادا نہ ادا کرنا، چور ، اچکے، بدمعاش ہونا، جاگیردار اور سرمایہ دار ہونا بھی شامل ہے۔ یہی نہیں ان کے خاندان کے خاندان سیاست کرتے ہیں، ملک میں موروثی سیاست کا سکہ چلتا ہے اور ان سب برائیوں کے خاتمے کے لئے ایک چھانٹی کی ضرورت ہے۔ اس نسخہ کیمیا کی کہ جس سے ملکی سیاست کا نقشہ بدل جائے گا، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آئین کی باسٹھ اور تریسٹھویں شق ہے جو چھانٹی کا کام کرے گی۔
پاکستان میں سیاستدانوں کی ” چھانٹی“کی باتیں کوئی نئی نہیں ، کبھی ایو ب خان نے بہت سے سیاستدانوں کو نا اہل قرار دے کر اور بی ڈی سسٹم رائج کر کے سیاست کو کرپشن سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تو کبھی ضیاء الحق نے اسی نعرے کے بل بوتے پرآئین میں شق باسٹھ ،تریسٹھ شامل کی اور غیر جماعتی انتخابات کروائے جن کے نتیجے میں”امین اور صادق“ لوگ جو سیاست کے گند سے”پاک صاف“ تھے منتخب ہوئے۔ اسی کرپشن کے نعرے کا سہارا لے کر غلام اسحق خان نے جمہوری حکومتوں کو برطرف کیا اور جنرل مشرف بھی کیوں پیچھے رہتے ، سیاست کو کر پشن سے پاک کرنے کا نعرہ انہوں نے بھی زور و شور سے بلند کیا ، مگر پھر کیا ہوا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔کرپشن کا خاتمہ تو نہ ہوا مگر پاکستان میں ہر مرتبہ جمہوریت کے ننھے پودے کو نشوو نما سے پہلے ہی کچل ضرور دیا گیا۔ پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں نے ہمیشہ ”سیاست نہیں ریاست“کے نعرے کا ہی سہارا لیا اور کبھی بھی جمہوریت کو اس ملک میں مستحکم ہونے کا موقع نہیں دیا۔ اب جبکہ ایک جمہوری حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کے قریب ہے اور پچھلے پانچ سال میں حکومت گرانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو چکیں تو ڈاکٹر طاہر القادری کا یکدم ظہور پھر اسی نعرے کے ساتھ ہوا جو پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں کا محبوب ترین نعرہ ہے۔ کبھی اس نعرے کو تقویت دینے کے لئے اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے تو کبھی سیاستدانوں کو پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
اب ٹی وی پر بیٹھے ان محترم کو کون سمجھائے کہ جس باسٹھ تریسٹھ کا ذکر وہ بار بار کر رہے ہیں اس کے خالق صدر جنرل ضیاالحق صاحب اس شق کی مدد سے1985 میں جن افراد کوغیر جماعتی بنیادوں پر منتخب کروایا ان میں سے نوے فیصد بھی ان شرائط پر پورا نہیں اترتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کو کنارے لگا کر نئے لائے جانے والے نیک اور ایماندار افراد بھی تعلیم عام نہیں کر پائے، لوگوں کو روزگار نہیں دے پائے،نہ ہی یہ لوگ اشیا خورد ونوش میں ملاوٹ کم کر پائے۔ کیا ان افراد کے دور میں جعلی ادویات بننی بند ہو گئیں؟ کیا 85 میں دکانداروں نے مال کی خریدوفروخت کی رسید دینی شروع کر دی؟ کیا ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی؟پانی کے بڑے ذخیرے بنائے گئے یا پھر کسی نئے ڈیم کا آغاز کیا گیا؟یا کیا پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہو گیا؟۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوااور چند سالوں بعد1988 میں پاکستان کی عوام نے اپنے حقیقی نمائندوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا کیونکہ یہ کسی بلٹ پروف گلاس کے پیچھے بیٹھ کر وعظ کرنے والے یا پھر فوجی وردی میں ملبوس صدارت کی کرسی پر فائز شخص کے اختیار میں نہیں ہے کہ عوام اپنی قسمت کے فیصلے کے لئے کسے منتخب کرتے ہیں۔اقتدار اعلیٰ کی مالک صرف خداوند کریم کی ذات ہے اور آئینِ پاکستان کی رُو سے اس ملک پرحق حکمرانی اسی کا ہے جسے اس ملک کے عوام اپنے نمائندے کے طور پر منتخب کریں۔
پاکستان کے سیاسی نظام میں یقینا تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن تبدیلی کا عمل آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہوتا ہے نا کہ” لشکر کشی“ اور جذباتی تقاریر سے جن میں سیاستدانوں کو مجرم ٹھہرا کر پارلیمنٹ کے خاتمے کا غیرآئینی اعلان کیا جائے۔ سیاسی عمل کے تسلسل سے بہت سے برے افرادوقت گزرنے کے ساتھ خود بخود سیاست سے باہر ہو جائیں گے لیکن نظام سیاست کو کرپٹ افراد سے بالکل پاک کرنا شاید اگلی کئی دہائیوں تک ممکن نہ ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاستدان کسی بھی ملک کے معاشرے کی نمائندگی اور عکاسی کرتے ہیں، ہمارے ہاں کرپشن باقاعدہ طور پر انسٹی ٹیوشنلائز کر دی گئی ہے، اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے دار شاید کسی خیالی دنیا میں بستے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک کلرک سے لے کر گریڈ اکیس کے افسر تک اور ایک رکشہ والے سے لے کر ایک پھل فروش تک کرپشن کے حمام میں برابر ننگے ہیں۔ مگر جمہوریت کو ختم کرنے کے لئے کرپشن کو توجیح کے طور پر پیش کرنے کی بات اب بہت پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہے کیونکہ غیر جمہوری قوتیں یہ تجربہ بہت مرتبہ کر چکی ہیں۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہی لیں، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بھی سیاستدانوں کے دامن کرپشن کے داغوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ بھارت میں2004 میں لوک سبھا کے لئے منتخب ہونے والے 543 افراد میں سے128 افرادکریمنل چارجز کا سامنا کرچکے تھے۔ ان بھارتی لوک سبھا ممبرز میں سے 84افراد پر قتل، 17 افراد پر ڈکیتی اور28 افراد پر چوری اور بھتہ خوری کے چارجز تھے۔یہی نہیں ایک صاحب ایسے بھی تھے کہ جن پر17 قتل کے مقدمات چل رہے تھے لیکن موصوف پھر بھی نہ صرف بھارتی لوک سبھا کے ممبر بنے بلکہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والی نیوکلیئر ڈیل کے وقت بھارتی لوک سبھا میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کے باعث کافی مال بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ یہی نہیں بھارتی لوک سبھا میں ہونے والے ایک موشن آف کانفیڈینس کے موقع پر تو دو ممبران اسمبلی کوجیل سے ووٹ ڈالنے کے لئے لانا پڑا جہاں وہ قتل کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ بھارت کی2004 میں منتخب ہونے والی لوک سبھا میں کانگرس کے26 اور بی جے پی کے29 اراکین پر کریمنل چارجز تھے۔ اسی پارلیمنٹ کے مختلف وزرا ء وقتاً فوقتاً کرپشن کی داستانیں منظر عام پر آنے کے بعد مستعفی بھی ہوتے رہے۔ لیکن کیا بھارت میں کسی نے یہ مطالبہ کیا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے؟ ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہاں کے لوگ اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کے بغیر ریاست کا وجود ممکن نہیں۔
جمہوری عمل کا تسلسل اورباشعور عوام ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جس کی مدد سے پاکستان میں بہتر سیاسی قیادت ابھر کر سامنے آئے گی۔ اگر جمہوریت کے ننھے پودے کو بار بار کسی ایڈونچرازم کے لئے مسخ کیا جاتا رہا تو ہماری تاریخ گواہ ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ایسے ایڈونچرازم کے بعد اس ملک میں کرپشن میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، کمی نہیں اور پھر جب عوام غیر جمہوری قوتوں کے کنویں سے بھی پیاسے لوٹ آئیں گے تو پھر سے وہ انہی سیاستدانوں کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیج دیں گے ۔اس عمل میں وقت کا ضیاع تو ممکن ہے لیکن کسی قسم کی اصلاح نہیں۔ بہتر ہے ہم اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جمہوری نظام کو چلنے کا موقع دیں ہم انتخابات سے صرف چار ماہ دور ہیں، یہ فیصلہ عوام کو ہی کرنے دیا جائے کہ کون پر حکمرانی کا اہل ہے اور کون نہیں تو یہی اس ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے بہتر ہو گا۔
رائیونڈ میں اپوزیشن کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ اور جمہوری عمل کی حمایت کے اعلان سے دل کو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی ، اس خوشی کو تحریک انصاف کے اس اعلان اور تقویت دی کہ وہ کسی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میرے اند ر یہ امید جاگ گئی کہ شاید اب وہ وقت آ گیا ہے جب پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری قوتیں بچپن سے بلوغت میں داخل ہو گئی ہیں۔ شاید اب ہمارے سیاستدان کبھی کسی غیر جمہوری قوت کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بنیں گے۔ پریس کانفرنس کے دوران محمودخان اچکزئی کے یہ الفاظ کہ ” اس ملک میں جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے مابین لکیر کھنچ چکی ہے ۔ 2013 کا پاکستان وہ نہیں کہ جس میں جب جس کا جی چاہے آئین پھاڑ دے۔ اگر جمہوریت کے خلاف کوئی سازش کی گئی تو ہر شہر میں تحریر سکوائر بنائیں گے “ ۔ میرے اندر کے اس انسان کو حوصلہ دے گئے جس نے اپنی سار ی زندگی جمہوریت کے لئے جدو جہد کی۔ جس کا آج بھی ایمان ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جمہوریت کے تسلسل میں ہی پوشیدہ ہے۔ شایدمجھ جیسے تمام لوگ جنہوں نے اس ملک میں جمہوریت کے لئے جدو جہد کی ابھی ناکام نہیں ہوئے ۔ امید اب بھی باقی ہے اور اس کا کریڈٹ ان تمام سیاستدانوں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے پچھلے پانچ سال میں غیر جمہوری قوتوں کے مقابلے میں اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ پاکستان کی بقاء صرف اور صرف مسلسل جاری رہنے والے جمہوری عمل میں ہے۔
تازہ ترین