• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھائی عبدالودود دھوتی والے کا آبائی شہر سہارنپور ہے۔ 1947ء میں ہجرت کر کے لاہور آئے تو انہیں یہاں کی عوامی دھوتی بہت پسند آئی جو ہوا دار ہوتی ہے۔ گرمیوں میں تو یہ بالکل ایئر کنڈیشنڈ بن جاتی ہے البتہ اگر ہوا چل رہی ہو تو تھوڑی بہت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ بھائی عبدالودود اس لباس پر عاشق ہو گئے اور انہوں نے اسے چوبیس گھنٹوں کے لئے اپنا پہناوا بنا لیا، ان کے پاس بیسیوں رنگ برنگی دھوتیاں ہیں جو وہ مختلف مواقع پر پہنتے ہیں۔ مثلاً جب سرسوں پھولنے کا موسم آتا ہے تو وہ سرسوں کے رنگ کی پیلی دھوتی پہنتے ہیں۔ کسی شادی میں جانا ہو تو کلر فل دھوتی کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی مرگ میں شرکت کرنا ہو تو اپنی ”وارڈ روب“ میں سے جو لوہے کے ایک صندوق پر مشتمل ہے، کالے رنگ کی دھوتی نکال لیتے ہیں، سرکار دربار میں جانا ہو تو وہاں فطری حالت میں حاضری دینا مفید ہوتا ہے لیکن اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پاتے چنانچہ وہ درمیانی راستہ نکالتے ہوئے کوئی ٹرانسپیرنٹ دھوتی پہن کر دربار میں حاضری دیتے ہیں، ان کی اس ”دھوتی پسندی“ کی وجہ سے لوگوں نے ان کے نام عبدالودود کے ساتھ دھوتی والے کا سابقہ بھی لگا دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے محلے میں عبدالودود نام کے چار پانچ لوگ اور بھی ہیں اور یوں اشتباہ سے بچنے کے لئے ان سب کے نام کے ساتھ ان کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ٹانک دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح امریکہ میں قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ نینی نام کی تین چار لڑکیوں کی وجہ سے میرے دوستوں نے ان سب کے ناموں کے ساتھ کچھ نہ کچھ لگا دیا تھا، جن میں سے نینی نام کی ایک حسینہ کی فراخ دلی کو خراج تحسین ادا کرنے کے لئے انہوں نے اسے ”نینی کامن ویلتھ“ کا نام دے رکھا تھا!
سو بھائی عبدالودود دھوتی والے بھی ایک مرنجاں مرنج شخصیت ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک جیسے لوگ میری دلچسپی کا باعث کبھی نہیں بنے مجھے منفرد لوگ اچھے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں بھائی عبدالودود کو بہت پسند کرتا ہوں۔ وہ گاہے گاہے مجھ سے ملنے آتے رہتے ہیں لیکن جب سے علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہے، اس دن کے بعد سے ان کی آمد میں تواتر پیدا ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے بھائی عبدالودود دھوتی والے علامہ صاحب کو پسند نہیں کرتے اور یوں ان کے حوالے سے اکثر مجھ سے بحث کرتے رہتے ہیں۔ البتہ گزشتہ روز تشریف لائے تو بہت خوش تھے۔ آتے ہی کہنے لگے ”آپ نے وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزماں”قاہرہ“ کی پریس کانفرنس دیکھی ہے؟“ میں نے کہا ”بھائی عبدالودود ان کا نام قمر الزماں کائرہ ہے، قمر الزماں ”قاہرہ“ نہیں“ بولے ”بس میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ نے ان کی پریس کانفرنس نہیں دیکھی۔ ورنہ انہوں نے جس قاہرانہ انداز میں آپ کے علامہ صاحب کے لتے لئے ہیں، آپ بھی انہیں ”کائرہ“ کی بجائے ”قاہرہ“ ہی کہتے اس کے بعد انہوں نے قمر الزماں ”قاہرہ“ کا قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا ”بھائی عطاء الحق پیپلز پارٹی کی قیادت میں جو دو تین معقول لوگ ہیں ان میں سے ایک یہ قمر الزماں ”قاہرہ“ بھی ہیں“ اس مرحلے پر میں نے انہیں ٹوکا اور کہا ”میں آپ سے متفق ہوں مگر اب ہر بار ان کی ذات برادری تو تبدیل نہ کریں“ بولے ”ٹھیک ہے تو میں عرض کر رہا تھا کہ کائرہ صاحب نے انتہائی مدلل انداز میں آپ کے علامہ صاحب کے مطالبات کا جواب دیا اور ہر بار وہ صحافیوں سے پوچھتے تھے کہ آپ میں سے کوئی میری اس بات کا جواب دے کہ جو مطالبات قادری صاحب کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مطالبات آئین اور قانون کے تحت ہیں، تو کیا آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ان کا کوئی ایک مطالبہ بھی قبول کیا جا سکتا ہے؟ ”ظاہر ہے وہ صحیح کہہ رہے تھے چنانچہ کوئی ایک صحافی بھی کائرہ صاحب کے اس سوال کی تردید نہ کر سکا!“ اس کے بعد بھائی عبدالودود نے ہنسنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا ”بھائی عبدالودود یہ آپ پر ہنسی کا دورہ کیوں پڑا ہے؟“ بولے ”ایک بات کائرہ صاحب کی اور ایک مولانا فضل الرحمن کی یاد آ گئی ہے۔ کائرہ صاحب اپنی گفتگو میں آپ کے ڈاکٹر، علامہ، پروفیسر اور شیخ الاسلام وغیرہ کو بار بار ”مولوی صاحب“ کہتے رہے اور ہر بار میری ہنسی نکل جاتی تھی کیونکہ قادری صاحب کو تو کوئی مولانا بھی کہہ دے تو وہ اسے مارنے کے لئے دوڑتے ہیں اور کائرہ صاحب انہیں مولانا سے بھی ڈی گریڈ کر کے ”مولوی صاحب“ کہتے رہے… دوسری طرف مولانا فضل الرحمن پر بھی غالباً حافظ حسین احمد کی شگفتہ صحبت کا اثر ہو گیا ہے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا طاہر القادری ہم مسلمانوں کے جے سالک ہیں“ تاہم میرے نزدیک جے سالک اور طاہر القادری میں ڈرامہ بازی کا عنصر تو مشترک ہے مگر جے سالک اپنی کمیونٹی کے ساتھ بہرحال مخلص ہیں!“
سچ پوچھیں تو مجھے بھائی عبدالودود کی یہ کمینی سی خوشی اچھی نہیں لگ رہی تھی، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ طاہر القادری ایک بڑے اسکالر، ایک اعلیٰ مقرر اور ایک شاندار تنظیم ہیں، ان کے عقیدت مند پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، چنانچہ گفتگو کے اس مرحلے پر میں نے بھائی عبدالودود دھوتی والے کو درمیان میں ٹوکا اور کہا ”آپ کا تمسخر کا لہجہ مجھے پسند نہیں آ رہا، براہ کرم آپ کوئی اور بات کریں، ان کے ہزاروں عقیدت مند سخت سردی کے موسم میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں، وہ اپنے مرشد کی ہدایت پر حسینی مارچ کر رہے ہیں اور آپ کو جگتیں سوجھ رہی ہیں!“ اس پر بجائے شرمندہ ہونے کے وہ پوری ڈھٹائی سے بولے ”کائرہ صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ ہزاروں معصوم بچے اور عورتیں سردی میں ٹھٹھر رہی ہیں اور ”مولوی صاحب“ خود سیون اسٹار کنٹینر میں آرام فرما تے رہتے ہیں ان کے ناشتے میں بے موسمی پھل بھی آتے ہیں اور ہر راحت اور آرام انہیں میسر ہے، یہ کیسا حسینی مارچ ہے کہ حضرت خود اس میں شریک نہیں ہیں۔ کائرہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ اس اجتماع کے شرکاء کو کہتے رہے کہ میں نے دیا گل کر دیا ہے جو جانا چاہے چلا جائے، مجھے رب ذوالجلال کی قسم ہے اور قیامت کے روز مجھے شافع محشر(ﷺ) کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر کسی کے جانے سے میرے دل میں رتی بھر بھی میل پیدا ہو… مگر اس کے ساتھ ان سے قرآن پر حلف بھی لیتے رہے کہ کوئی یہاں سے اٹھ کر نہیں جائے گا۔ جو جائے گا، وہ ظالم اور غدار ہو گا! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟“ میں نے کیا کہنا تھا، خاموش رہا کہ جانتا تھا جس دل میں عناد اور بغض بھر ہو، وہ چار گھنٹے کی تقریر میں سے اپنی مطلب کی بات نکال ہی لیتا ہے، مجھے خاموش دیکھ کر بھائی عبدالودود دھوتی والے نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا اور کہا ”کائرہ صاحب نے ایک اور بات یہ کہی کہ مولوی صاحب بار بار چھاتی پھلا کر کہتے ہیں کہ تمہاری گولیاں ہیں اور میری چھاتی ہے، تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں وغیرہ وغیرہ… اور یہ باتیں وہ بنکر میں بیٹھ کر کر رہے ہیں اور اپنے عقیدت مندوں کو کھلے میدان میں بیٹھا رکھا ہے۔ کائرہ صاحب نے ایک بات نہیں کہی، انہیں یہ بھی پوچھنا چاہئے تھا کہ کیا باہر سردی میں کھلے آسمان تلے کیا ان کے اہل خانہ بھی موجود ہیں کہ نہیں اور ایک بات یہ بھی پوچھنا چاہئے تھی کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کتنے لوگ اس دھرنے میں شریک ہیں جسے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ اجتماع کہا جا رہا ہے؟“
اس مرحلے پر ایک بار پھر بھائی عبدالودود نے مجھ سے پوچھا ”آپ نے اللہ کو جان دینی ہے، سچ سچ بتائیں کہ دھرنے میں کتنے لوگ شریک ہیں؟“ میں نے کہا ”کم سے کم چالیس ہزار انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے“ بولے ”حیرت ہے ان معصوم لوگوں پر جو اپنے مرشد کی زبان سے سن رہے ہیں کہ یہ چالیس لاکھ کا مجمع ہے اور اس صریحاً جھوٹ کے باوجود ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں!“ میں نے محسوس کیا کہ اب بات بہت آگے بڑھتی جا رہی ہے چنانچہ میں نے ایک اختتامی جملہ کہہ کر الوداعی مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ میں نے کہا ”علامہ صاحب کی طرح آپ کو بھی چالیس ہزار کا مجمع چالیس لاکھ کا دکھائی دے سکتا ہے اگر آپ بھی اس ماں کی نظر سے دیکھیں جسے اپنا کم صورت بچہ بھی دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ لگتا ہے!“
تازہ ترین