• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محنت کشوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ریاست کا بنیادی فرض ہے

محمد انور

اس سے پیشتر کہ ہم یوم مئی کے اسرار و رموز پر بات کریں اس کیمسٹری کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یوم مئی کے محرکات کیا تھے۔ 19ویں صدی میں امریکن سرمایہ دار اور حکومتی عہدیداران میں دولت کی ہوس اتنی شدت اختیار کر گئی تھی کہ انہوں نے مزدور اور غریب آدمی کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا شروع کر دیا تھا۔ مزدور کو 16/16گھنٹے انتھک محنت کرنے کے باوجود اتنا کھانا میسر ہوتا تھا جس سے اس کے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رہے (تاکہ وہ سرمایہ دار کے لئے کام کرتا رہے) ضروریات زندگی کی اشیاء اجرت کے مقابلے میں کئی گنا مہنگی تھیں، سرکاری اداروں میں رشوت کے بغیر نوکری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

مذکورہ بالا پراگندہ حالات میں صنعتی اداروں کی یونینز کے لیڈروں نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے مزدور طبقے میں نئے ولولے اور جذبے کو ابھارا یوں تو مزدور تحریک کئی عشروں سے چل رہی تھی لیکن 1886میں یہ تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی، یہ یونینز لیڈروں کی ہی اثر انگیز تقریروں کا نتیجہ تھا کہ اس وقت امریکا کے 11562 اداروں کے ورکرز نے پہیہ جام ہڑتال کر دی اور سڑکوں پر نکل آئے، اس احتجاج میں امریکہ کے تمام ریلوے سٹیشن بھی بند ہو گئے تھے حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی شروع کی گئی اور انہوں نے ہڑتال ختم کرانے کے لئے فائرنگ کر کے کئی مزدوروں کو ہلاک و زخمی کر دیا اور بعد ازاں مزدور دشمن عدالتوں کے ذریعے مزدور لیڈروں کو پھانسی اور بعض کو عمر قید کی سزا دی گئی لیکن مزدور جاگ چکا تھا بقول فیض؎

آ جائو میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا

آ جائو میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال

آ جائو میں نے درد سے بازو چھڑا لیا

آ جائو میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال

مزدوروں کی جوالا مکھی بھڑک اٹھی تھی اور آخر لمبی جدوجہد کے بعد مزدور کا عزم جیت گیا سرمایہ داروں نے امریکن مزدوروں کے 8گھنٹے اوقات کار اور ہفتہ واری چھٹی کا مطالبہ منظور کر لیا۔

اس میں دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان کا مزدور بھی اجرت کے بانجھ پن سے نڈھال ہو چکا ہے لیکن یہاں میں محکمہ شہری دفاع میں عارضی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے محکمہ سول ڈیفنس کے کنٹینجٹ ملازمین (Contingency Staff)کے رضا کاروں کے حالات زار پر روشنی ڈالوں گا جو 1886کے مزدوروں سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کے بارے میں مختصراً وضاحت یہ ہے کہ ان رضا کاروں کی دو اقسام ہیں ایک والینٹیر ہیں جو قومی دنوں کے موقع پر اپنی کارکردگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، دوم :تنخواہ دار رضا کار ہیں جو مختلف سرکاری اداروں میں دیئے گئے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں، ان تنخواہ دار رضا کاروں کو 2009 میں 200روپے یومیہ ملنا شروع ہوا پھر حکومت نے 4سال بعد 2013میں 400روپے یومیہ دینا شروع کر دیا اور موجودہ ہما گیر مہنگائی کے دور میں 500روپے سے اوپر یومیہ دیا جا رہا ہے۔ یہ رضا کار 9/10سالوں سے سرکاری اداروں میں مختلف نوعیت کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں یاد رہے کہ یہ رضا کار مستقل بنیادوں پر سرکاری نوکری کرنے والوں کی طرح ہی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں لیکن نہ انہیں میڈیکل الائونس کی سہولت ہے نہ کنوینس الائونس ان کو دیا جاتا ہے نہ ہائوس رینٹ ملتا ہے نہ یہ ریٹائر ہوں گے تو نہ انہیں گریجویٹی ملے گی نہ ہی پنشن سے مستفید ہوں گے لیکن ڈیوٹی پوری ادا کرتے ہیں کیونکہ انہیں نکالنے کے لئے کسی نوٹس کی ضرورت نہیں ہوتی ذمہ داریاں پوری نبھانے کے باوجو د مراعات ایک فیصد بھی نہیں ہیں ان رضا کاروں کو ہر سہولت سے عاق کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ تمام محنت کشوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ریاست کا بنیادی فرض ہے۔

ان رضا کاروں کو ہر ماہ 15ہزار تنخواہ دی جاتی ہے (بعض اوقات دو تین ماہ بھی تنخواہ نہیں ملتی) ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کرائے پر رہنے والا یہ رضا کار گھر کا کیسے کرایہ دے گا بجلی پانی گیس کا بل کس طور ادا کرے گا وہ کون سا فارمولا ہو گا جس سے اس کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں گے وہ کس طرح اپنے خاندان والوں کی بیماری کا علاج کرا پائے گا 9/10سالوں میں یہ رضا کار انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہے ۔ ریاست مدینہ میں صدیوں کے استحصال اور پسماندگیوں کا خاتمہ ہوا تھا ہم توقع کرتے ہیں کہ ریاست مدینہ کے نام پر بننے والی حکومت اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان بے نوا اور بدحال رضا کاروں کو مستقل بنیادوں پر سرکاری ملازمت دے کر ان کے خاندانوں کی دعائیں لے گی یہ ہی ریاست مدینہ کی سربلندی اور اسلام کی آفاقیت ہے۔ 

تازہ ترین