صدائے تکبیر … پروفیسرمسعود اختر ہزاروی رمضان المبارک برکتوں والا مہینہ ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اہل ایمان اس ماہ مبارک میں عبادات کے ذریعے اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں اسلامی تاریخ کے کئی ایسے واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے اس مہینے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔رمضان ہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں تمام آسمانی کتب نازل ہوئیں ۔10 رمضان المبارک کو حضور ﷺکی زوجہ محترمہ اور اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ انہوں نے رمضان المبارک میں ہی اسلام قبول کیاتھا۔15 رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔17 رمضان المبارک کو ام المومنین حضرت عائشہ کی وفات ہوئی۔17 رمضان المبارک کو کفر اور اسلام کے درمیان پہلی کشمکش’’ غزوہ بدر ‘‘ہوا۔ یہ اسلامی تاریخ کا فیصلہ کن مرحلہ تھا جس میں 313 مسلمانوں پر مشتمل لشکر نے اپنی تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے کہیں زیادہ کفار کے لشکر کو شکست فاش دی۔ دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دینے والا فتح مکہ کا واقعہ دس رمضان المبارک آٹھ ہجری میں پیش آیا جس نے آگے چل کر دنیا کی تہذیب و تمدن پر نمایاں اثرات مرتب کر کے اسلامی طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہ واقعہ بعض مورخین کے مطابق 17 رمضان المبارک کو پیش آیا اور بعض کے مطابق 20 رمضان المبارک کو۔ 18 رمضان المبارک کو اللہ نے حضرت داؤد ؑ پر زبور نازل فرمائی۔19 رمضان المبارک کو حضرت سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اکیس رمضان المبارک کو آپ کی شہادت ہوئی۔ اسی طرح رمضان المبارک کی تین تاریخ کو آغوش نبوت کی پروردہ خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا وصال پر ملال ہوا۔ خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہاکے بارے میں حضورﷺنے فرمایا کہ فاطمۃؓجنت کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ایک اور موقع پرحضورﷺنے ارشاد فرمایاکہ فاطمہؓ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی۔احادیث مبارکہ میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓحضورﷺکی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ہیں، آپ جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسنؓ اورسیدنا حضرت حسین ؓکی والدہ اور سیدنا حضرت علیؓ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے طور و طریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی،نشست و برخاست،طرزگفتگواور لب ولہجہ میں حضورﷺکے مشابہہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓسے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ایک اور موقع پر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں کہ میں نے حضورﷺکے سوا سیدہ فاطمۃ الزہراؓسے سچا اور صاف گو کسی کو نہیں دیکھا (الاستیعاب) ام المومنین حضرت سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓرفتاروگفتارمیں حضورﷺکا بہترین نمونہ تھیں، صحیح بخاری میں ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ فاطمۃ علیہا السلام خواتین امت کی سردار ہیں۔ایک موقع پر حضورﷺنے فرمایا کہ فاطمۃؓمیرے جگر کا ٹکرا ہے جس نے اس کو تنگ کیا اس نے اللہ کو تنگ کیا، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کرے۔ مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوت کے وقت جب حضورﷺکی عمر مبارک 41سال تھی تو حضرت سیدہ فاطمۃؓمکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ کا عکس جمیل تھیں۔ جود و سخا، فکر رسا اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خداﷺ سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسولﷺ نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے34 مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ کنیز کی خواہش ترک کردی۔ بعد میں رسول خداﷺ نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں۔ وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں. بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے۔اس تقسیم کار کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہا نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا انجام دیتی تھیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسولﷺ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاسے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا س سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے فاطمہ زہر سلام اللہ علیہا سے ملنے کے لئے جاتے تھے۔ عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ رسول کریم ﷺ کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے علاوہ کسی اورکے ساتھ نہ تھا. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس بارے میں سیدہ سلام اللہ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا‘‘۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی۔‘‘ یقینا سیدہ سلام اللہ علیہاکا کردار و عمل امت مسلمہ کی بیٹیوں کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہے۔