• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر طاہر القادری کو علامہ کینیڈی لکھنے پر ان کے کچھ عقیدت مند مجھ سے سخت ناراض تھے۔ عقیدت مندوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری تبدیلی اور انقلاب کی علامت ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی مخالفت کا مطلب تبدیلی کی مخالفت ہے۔ میں نے ان کے ایک جذباتی عقیدت مند کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے دسمبر 1999ء میں مسجد شہداء کے سامنے ڈاکٹر طاہر القادری کا ایک احتجاجی دھرنا یاد ہے۔ انہوں نے یہ دھرنا سو بچوں کے ایک قاتل کے خلاف دیا تھا۔ اس زمانے میں جنرل پرویز مشرف نئے نئے اقتدار میں آئے تھے۔ شاہراہ قائد اعظم لاہور پر دفعہ 144 نافذ تھی۔ جیسے ہی طاہر القادری منہاج القرآن سکول سسٹم کے طلبہ کے ساتھ مسجد شہداء سے باہر آئے تو پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا اور ڈاکٹر صاحب بچوں کو وہیں چھوڑ کر اپنی لینڈ کروزر میں بھاگ گئے۔ میں نے ان کے عقیدت مند سے کہا کہ بطور ایک صحافی میں ڈاکٹر صاحب کو بہت پرانا جانتا ہوں۔ منہاج القرآن کے پہلے ناظم اعلیٰ مفتی محمد خان قادری کے توسط سے مجھے جو معلومات ملیں وہ انتہائی حیران کن تھیں۔ رہی سہی کسر ڈاکٹر صاحب کے ایک سابقہ ساتھی اور معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی مرحوم کی کتاب ”گئے دنوں کا سراغ“ نے پوری کر دی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ڈاکٹر صاحب نے نواز شریف سے اپنی بہنوں کے نام پر پلاٹ لئے اور جب کبھی ان سے پوچھا جاتا کہ آپ نے شریف خاندان سے فائدے اٹھائے اور پھر ان کی مخالفت بھی کی تو ڈاکٹر صاحب کہا کرتے کہ حضرت موسیٰ  بھی تو فرعون کے گھر پلے بڑھے تھے۔ مظفر وارثی نے ڈاکٹر طاہر القادری کے کہنے پر سرکاری نوکری چھوڑ کر مصطفوی انقلاب کیلئے پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی لیکن جب انہیں ”وزیر اعظم طاہر القادری“ کے نعرے لگانے پڑے تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو خیر باد کہہ دیا۔ 14 جنوری 2013ء کو ڈاکٹر صاحب کا ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا شروع ہوا تو ان کا دعویٰ تھا کہ وہ انقلاب کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔ وہ اسلام آباد کو کربلا اور حکمرانوں کو یزید، فرعون اور نمرود قرار دے رہے تھے۔ میرے کچھ محترم ساتھیوں کا خیال تھا کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کون ہے یہ دیکھا جائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میرا موقف تھا کہ بطور صحافی کوئی خبر قارئین تک پہنچاتے ہوئے ہمیں غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہے لیکن خبر پر تجزیہ کرتے ہوئے ہم جھوٹ اور سچ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتے، ہمیں قارئین کو بتانا چاہئے کہ آج انقلاب کا نعرہ لگانے والا دس سال پہلے کیا کر رہا تھا اور بیس سال پہلے کیا کر رہا تھا؟
جس دن ”علامہ کینیڈی“ کے عنوان سے اس خاکسار کا کالم شائع ہوا اس شام ساری دنیا نے دیکھا کہ جن حکمرانوں کو ڈاکٹر طاہر القادری یزید، فرعون اور نمرود قرار دے رہے تھے انہی حکمرانوں کو گلے بھی لگایا اور ان کے ساتھ مذاکرات بھی کئے۔ جب ڈاکٹر صاحب باری باری حکومتی وفد کے ارکان کا تعارف کروا رہے تھے اور وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ فرط جذبات سے ان کے سینے سے لگ رہے تھے تو مجھے آغا شورش کاشمیری کا یہ شعر یاد آیا #
سیاسی مچھندر خدا ہو گئے ہیں
لٹیرے تھے اب رہنما ہو گئے ہیں
ڈاکٹر ڈاکٹرطاہر القادری اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات کی تفصیل بڑی دلچسپ ہے۔ مذاکراتی ٹیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے انہیں بار بار نواز شریف کے متعلق قصے کہانیاں سنائیں۔ وفد کے ارکان نواز شریف کے متعلق باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب زبردستی کہانی پر کہانی سنا رہے تھے۔ اس دوران ایک حکومتی وزیر نے اپنے ساتھی کے کان میں کہا کہ یہ اپنے مریدوں کو جھوٹے خواب سناتا ہے ہمیں جھوٹی کہانیاں سنا رہا ہے ہم کدھر پھنس گئے؟ ڈاکٹر صاحب فرما رہے تھے کہ ایک زمانے میں نواز شریف ان کے عقیدت مند تھے اور باقاعدگی سے اتفاق مسجد ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان کا درس قرآن سنتے تھے۔ ایک دفعہ نواز شریف ان کے دفتر میں آئے اور دروازہ بند کر کے بڑے تجسس سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کہیں آپ امام مہدی تو نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں کہا کہ نہیں نہیں میں امام مہدی نہیں ہوں۔ یہ سن کر نواز شریف پریشان ہو گئے اور بے چینی سے کہا کہ تو پھر آپ کون ہیں؟ یہ کہانی سن کر حکومتی وفد کے ارکان تو ہنس دیئے لیکن مشاہد حسین نے کہا کہ واقعی یہ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ آپ کون ہیں اور آپ کے پیچھے کون ہے؟ مشاہد صاحب کے جملے پر ڈاکٹر طاہر القادری بھی ہنسنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کئے اس کے بعد کون سا انقلاب آیا ہے؟ اس معاہدے پر اس وزیر اعظم نے دستخط کئے جس کی گرفتاری کے حکم پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے ساتھیوں کو مبارکبادیں دی تھیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوا کہ سیاست اور میڈیا میں انقلاب کے نام پر غیر جمہوری تبدیلی کے حامی بے نقاب ہو گئے۔ کیسی ستم ظریفی تھی کہ ایک طرف ڈاکٹر طاہر القادری کرپشن کے خلاف نعرے لگا رہے تھے دوسری طرف این آر او پر دستخط کرنے والا مفرور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کھل کر ڈاکٹر صاحب کی حمایت کر رہا تھا۔ کیا یہ محض ایک اتفاق تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی حمایت کرنے والوں میں اکثریت مشرف کے سابقہ ساتھیوں کی تھی؟
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ناکام لانگ مارچ اور آخر میں سرنڈر کا سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف کو ہوا ہے۔ حکومت ڈاکٹر صاحب کو روکنے میں ناکام رہی لیکن جب نواز شریف نے لاہور میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کر لیا تو حکومت کے حوصلے بلند ہوئے اور طاہر القادری نے چند گھنٹوں میں ہتھیار پھینک دیئے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ فائدہ نواز شریف کو نہیں آصف زرداری کو ہوا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا دراصل آئندہ الیکشن ملتوی کرانے کی ایک ناکام سازش تھی تاکہ نواز شریف اقتدار میں نہ آ سکیں۔ اس ناکام سازش سے پاور پالیٹکس کرنے والے کئی موسمی سیاستدان خبردار ہو گئے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف ایک اور سازش بھی ہو سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ اگلی سازش ناکام ہو جائے لہٰذا یہ موسمی سیاستدان نواز شریف کے کاروان میں شمولیت سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے۔ جہلم سے نواز شریف کے ایک پرانے ساتھی راجہ افضل کی اپنے دو ایم این اے صاحبزادوں کے ہمراہ پیپلز پارٹی میں شمولیت خاصی حیران کن ہے۔
راجہ افضل سابق گورنر چودھری الطاف اور ڈاکٹر غلام حسین کے سیاسی حریف رہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی خود کشی کیلئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ ان کی شمولیت کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو خاصا ٹف ٹائم دے گی لیکن دوسری طرف نیب کے ایک نوجوان افسر کامران فیصل کی پراسرار موت نے پیپلز پارٹی کے حلقوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ کامران فیصل رینٹل پاور کمپنیوں کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کر رہے تھے۔ ان ہی کی پیش کردہ رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ کامران فیصل کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ خاصے دباؤ میں تھے۔ نیب کے ایک افسر کوثر ملک نے ان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف اپنی رپورٹ کو تبدیل کریں۔ کامران فیصل نے 17جنوری کو رپورٹ تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار ان کی بہادری کا ثبوت تھا تو پھر اتنے بہادر آدمی نے خود کشی کیسے کر لی؟ کامران فیصل کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کی لاش پر تشدد کے نشانات تھے جبکہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان کی موت کی وجہ خود کشی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ نیب حکام نے کامران فیصل کو بددیانتی پر مجبور کیا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ کامران فیصل کیس کی انکوائری میں کوثر ملک اور ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کو شامل کیا جانا چاہئے۔ یہ بھی ایک ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کوثر ملک نے کس کے حکم پر کامران فیصل کو وزیر اعظم کے خلاف رپورٹ کرنے کیلئے مجبور کیا؟ اس سوال کے جواب کیلئے یہ معلوم کر لیا جائے کہ کوثر ملک کی نیب میں تعیناتی کس نے کرائی تھی؟
تازہ ترین