• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح شیطان کی آنت سمیٹی نہیں جا سکتی، جیسے ہوس کی کوئی حد مقرر نہیں ہوسکتی بالکل اسی طرح سے موقع پرستوں کی جنت ارضی، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی مائی کا لال نظریہٴ ضرورت کو نہ دفنا سکتا ہے نہ ہی کسی میں اتنی جان ہے کہ وہ اس کی غائبانہ نمازجنازہ کیلئے صف کھڑی کر سکے۔ جس جس کو جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ حسب ضرورت نظریہٴ ضرورت سے مستفید ہوتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ملک بھر میں بانگ درا کے شوقین نظریہٴ ضرورت کے خاتمے کا دعویٰ کر کے اسے ابدی زندگی عطا کرنے کے لئے ریاست اور سیاست کے مختلف شعبوں میں نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔آپ قومی خزانے کی مثال لے لیجئے۔ جس کو خرچ کرنے کے لئے ایک عدد بجٹ مرکز میں بنایا جاتا ہے اور چار عدد بجٹ صوبوں میں بنتے ہیں جن میں نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ کے مطابق قومی سرمایہ ڈالا جاتا ہے۔ یہ بجٹ قومی اسمبلی سمیت پانچ اسمبلیاں بناتی ہیں لیکن اسے خرچ کرتے وقت رولز، قواعد، ضابطے اور قانون کی بجائے نظریہٴ ضرورت سب پر بھاری ہو جاتا ہے۔ اسی لئے کچے دیہات کی نرم و نازک گلیاں ہوں یا بارشوں میں تنکے کی طرح بہنے والی پختہ سڑکیں… یہ وطنِ عزیز کے امور ترقیات میں پیدا ہو نے والے نظریہٴ ضرورت کے ایسے بچے ہیں جن پر 65سالوں میں کھربوں روپے سے زیادہ سرمایہ تنگ نالیوں اور گندے نالوں میں بہا دیا گیا ہے۔ اخراجات کی مد میں مرکز کا مالیاتی فنڈ بھی پیچھے نہیں۔ جسے آئین کے تحت صحیح معنوں میں وفاقی خزانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں سے جن آئینی اداروں کو خرچ مہیا کیا جاتا ہے وہاں سے جواب مانگنے پر سوال کرنے والوں کو حسبِ ذائقہ اور حسب استطاعت نظریہ ضرورت کی ”پھکی“ دی جاتی ہے ۔ قوم نے ابھی تک نہیں دیکھا کہ یہ پھکی کھانے کے بعد کبھی کسی کو دوبارہ سوال کرنے کی بدہضمی ہوئی ہو ۔ اس سلسلے کا تازہ ترین بلکہ تاریخ ساز ”واقعہ پھکی“ پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کسی زمانے میں ریاست بھی ماں کے جیسی ہوتی تھی۔ ریاست کو اونچے سُروں میں قوالی کی طرح گا،گا کر ماں کہنے والے آج کل ”باں باں“ کر رہے ہیں۔ جب سے تین بڑوں کے کاوٴنٹ ڈاوٴن کا آغاز ہوا ہے نظریہٴ ضرورت کا نیا ماڈل ماں کے آگے بغاوت اور ہاں کے آگے ”نہ“ کو عین سیاسی عبادت سمجھتا ہے۔ اگر ریاست کو ماں کے جیسا سمجھنے والا کارکن ،سیاست کار ،اس ملک نے کبھی دیکھا ہے تو وہ بابائے سوشلزم شیخ رشید تھے جنہوں نے سوشلسٹ برابری اور اسلامی مساوات کے نعروں کو حقیقت کے تصور میں ڈھالنے کے لئے1973ء کے آئین میں آرٹیکل نمبر 3کا اضافہ کرایا۔ ان کی محنت کا ثبوت آج بھی ہماری پارلیمینٹ کی لائبریری پر ایسا قرض ہیں جس کی ادائیگی تو ایک طرف اس کی اکاوٴنٹ شیٹ پر نظر ڈالنے کیلئے ماڈرن انقلابیوں یا سیلف اسٹائل سرخوں سمیت سیلف اسٹارٹ تحقیق کاروں کو کبھی وقت نہیں مل سکا۔ آئین کاآرٹیکل نمبر3/ایک انتہائی مختصر مگر بہت ہی جامع کمٹمنٹ ہے۔ جو ریاست پاکستان نے اپنے عوام کے ساتھ 12/اپریل1973ء کے دن آئین کے ابتدائیے میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر بطور ضمانت کی تھی مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ما سوائے معدودے چند ضرورت کے موقعوں کے علاوہ اس آرٹیکل کو نہ کو ئی کھولنا چاہتا ہے، نہ کو ئی چھونا چاہتا ہے اور نظریہٴ ضرورت کے بغیر نہ ہی کوئی اسے پڑھنا چاہتا ہے۔ اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ”ریاست لازمی طور پر اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ملک سے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے اور ہر کسی کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور ہر کسی کو اس کی اہلیت اور کام کی نوعیت کے مطابق حق دیا جائے“۔ میں پوری دیانتداری سے آرٹیکل تین کو پاکستان کے آئینی نظام کے ڈھانچے کی بنیاد سمجھتا ہوں کیونکہ آج نظریہٴ ضرورت نے جتنے بچے جنے ہیں وہ سارے کے سارے استحصال کے استعارے ہیں ۔ کھیت میں ہل چلانے والا مردِ مزدور ہو یا گھٹنے تک کھڑے پانی میں بوائی کرنے والی صنفِ نازک۔کھلیانوں میں کام کرنے والے دیہاڑی دار مزدور ہوں یا شوگر ملوں، چاول پالش کرنے والی فیکٹریوں اور اینٹیں بنانے والے بھٹّوں پر پاوٴں میں رسیاں پہن کر جبری مشقت کرنے والے بچے۔ پاکستان میں جس قدر محنت کا استحصال سرمائے کے ہاتھوں ہو رہا ہے اس کی مثال شاید ہی کسی دوسرے ماڈرن معاشرے سے دی جا سکے۔
ہم اس پر فخر کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا کسان اس قدر اناج پیدا کرتا ہے جو اس کے اڑوس پڑوس کی دو درجن سے زائد ریاستوں میں اسمگل ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کے پیٹ بھرتا ہے لیکن پاکستان میں پیدا ہونے والی اکثر زرعی اجناس کھیت میں مفت کے بھاوٴ اٹھائی جاتی ہیں اور استحصالی دلال اسے منڈی میں موتیوں کے بھاوٴ بیچ کر محنت اور سرمائے کے درمیان خلیج بڑھانے کو ”ہذا من فضل ربی“ کہہ کر پسینے میں شرابور اور محنت سے چور جسموں کا مقدس استحصال کرتے ہیں۔ اس استحصالی نظام میں صرف ضمیر نہیں بکتے، فقط ووٹ نہیں بکتے بلکہ پاکستان کا مستقبل بیچا جاتا ہے۔ مزدور، محنت کش، ہاری ، دیہاڑی دار، کنٹریکٹ ملازم ، بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر کے شکاری کروڑوں بے کس پاکستانیوں کی روحوں اور جسموں کے مالک ہیں مگر انہیں محنت کا اجر اتنا ہی ملتا ہے جتنا کھا کر وہ اگلے دن پھر محنت کر سکیں۔ پاکستان جیسے زرعی معاشرے میں انقلاب لانے کیلئے صرف ایک دفعہ مکمل موقع یا موٴثر موقع اس دن آیا تھا جب 9جنوری 1977ء کے دن پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے زرعی اصلاحات کا ایکٹ 2آف 1977ء لینڈ ریفارمز ایکٹ کے نام سے پاس کیا تھا۔ اس ایکٹ کے باب نمبر دومیں زمین کی حدِ ملکیت اور زمین پر قبضہ کی حد بیان کی گئی تھی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اس ایکٹ کی دفعہ 3میں یہ قانونی پابندی لگائی گئی کہ پاکستان کا کوئی شخص آبپاشی والی زمین کے ایک سو ایکڑ اور بارانی زمین کے دو سو ایکڑ سے زیادہ زمین کی نہ ملکیت رکھ سکتا ہے نہ ہی شاملات دیہہ میں قبضہ رکھنے کا مجاز ہے ۔ اسی ایکٹ کے دفعہ 8-9 کے مطابق حد ملکیت پر پابندی کے بعد جاگیرداروں، وڈیروں، نوابوں، فیوڈل لارڈز کے پاس باقی رہ جانے والی زمین، اس میں لگے درخت وباغات سرکاری ملکیت میں لے لئے گئے۔ تب ایسا موقع پیدا ہوا جیسا بھارت کے اندر ہوا تھا۔ اُس وقت جب وہاں حدِ ملکیت 25/ایکڑ مقرر کی گئی اور فالتو زمینوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیاتھا۔ بھارت نے اس قانون پر دھرم کی طرح عمل کیا لہٰذاآج وہاں زرعی ٹیوب ویلوں میں استعمال ہونے والی بجلی سرکار مفت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں بیس کروڑ لوگوں کو عام طور پر اور تین کروڑ نئے درج ہونے والے ووٹروں کو خاص طور پر یہ سوال ضرور اٹھانا چاہئے کہ ہمارے ہاں زرعی اصلاحات کے ساتھ کس نے کیا سلوک کیا…؟ قومی تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کیلئے ان قومی مجرموں کی نشاندہی بہت ضروری ہے جنہوں نے زرعی اصلاحات پر عمل نہیں ہونے دیا، ان کا راستہ روکا، انکے خلاف قانونی صف بندی کرائی، وڈیروں کو جاگیریں اور لٹیروں کو ملیں واپس کرائیں۔غریبوں کی آرزووٴں اور ضرورتوں کے مرکز پاکستان کوبے رحم سرمایہ داروں، جاگیرداروں، لٹیروں،چور بازاروں کے استحصالستان میں تبدیل کر دیا۔ اس سلسلے کا مرکزی ملزم 1977ء کا مارشل لاء ہے جس نے پاکستانی ریاست میں جبڑے گاڑنے کیلئے نظریہٴ ضرورت کا چولہ پہنا۔ کلاشنکوف اور ہیروئن جیسے لے پالک شیطانی بچے پالے۔ بہت بڑے بڑے جاگیرداروں کو جنہوں نے انگریزوں سے مادرِ وطن کے ساتھ غداری کرنے کے انعام میں جاگیریں لیں انہیں ایک جوڈیشل فورم سے فیصلہ لے کر جاگیریں لوٹا دی گئیں۔ ”جیہڑا واوے ، اوہو ای کھاوے“( جو زمین بوئے گا وہی پھل کھائے گا ) کا نعرہ لگانے والے دیکھتے رہ گئے اور پاکستانی سماج ایک مرتبہ پھر نظریہٴ ضرورت کے بچوں کے ہاتھ آ گیا۔اس استحصالی طبقے کی دوسری نسل بے رحم ہی نہیں بے پروا بھی ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اب ان لوگو ں کی تعداد درجنوں، سیکڑوں یا ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں سے بھی بڑھ گئی ہے جو پاکستان کو کمائی کا ذریعہ یا کمائی کی منڈی سمجھتے ہیں وہ اس منڈی سے کمایا ہوا مال پاکستانی بنکوں یا سرزمین میں رکھنا خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں۔ یہ برائے نام تبدیلی پر لرز جاتے ہیں اور لفظ استحصال سن کر بھڑک اٹھتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو جمہوریت کی دیوار گریہ کے پیچھے باجماعت کھڑے ہو کر سسکیاں بھرتے ہیں۔ ان کے ہاں پیدا ہونے والا لڑکا وزیر اعظم ہوتا ہے وہ فخر سے اپنے کلاس فیلوز کو کہتا ہے میں بڑا ہو کر تمہیں پیلی ٹیکسی، CNG، پٹرول ،آٹے کی لائن میں سب سے پہلے انٹرٹین کروں گا۔ پہلے افراد ، ٹولیاں ، جتھے اور جماعتیں نظریہٴ ضرورت کے سرپرست تھے اب ریاست ان سب کی ماں ہے یعنی نظریہٴ ضرورت کی والدہ ماجدہ!
تازہ ترین