• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا حافظ عبدالودود شاہد

ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓکے بارے میں حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ! جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں،جب لوگوں نے مجھے معاش سے محروم کر دیا تو انہوں نے مال سے میری مدد کی،اللہ نے دوسری بیویوں سے مجھے اولاد سے محروم رکھا تو ان سے اولاد عطا فرمائی۔

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کو عورتوں میں سے سب سے پہلے حضورﷺپر ایمان لانے اور حضورﷺکی پہلی بیوی ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے، آپؓ نے پچیس برس حضورﷺکی رفاقت و خدمت میں بیوی ہونے کی حیثیت سے گزارے اور اپنی تمام دولت حضورﷺکے قدموں پر نچھاور کر دی۔

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ، حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ حضورﷺنے انہیں جنت کے ایک ایسے گھر کی خوش خبری سنائی جو ہیرے جواہرات اور موتیوں کا ہو گا جس میں شور ہو گا اور نہ ہی رنج و ملال۔

حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ حسنِ سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، عفّت و عصمت اور شرافت و مرتبے کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقوں میں ’’طاہرہ‘‘ کے خوب صورت اور پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں،آپؓ کا سلسلہ نسب ’’قصی‘‘ پر پہنچ کر حضورﷺکے خاندان سے مل جاتا ہے۔حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے والد خویلد کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا جو کہ بہت بڑے اور کامیاب تاجر تھے،عام روایت کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ’’عام الفیل‘‘ سے پندرہ برس قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں،آپؓ کی تربیت و پرورش انتہائی نازو نعم میں ہوئی۔

آپؓ کے پاس مال و دولت اور سامان تجارت کی کثرت تھی، آپؓ خود لکھنا پڑھنا جانتی تھیں جس کی وجہ سے آپؓ اپنے کاروبار اور سامان تجارت کی خود نگرانی کیا کرتی تھیں،آپؓ کا کاروبار شام اور یمن تک پہنچ گیا تھا،آپ کا تجارتی قافلہ سب سے بڑا ہوتا تھا اور آپؓ اپنا سامان تجارت مختلف لوگوں کے ذریعے شام اور یمن تجارت کی غرض سے بھیجا کرتی تھیںاور انہیں بھی منافع میں شریک کر لیتیں،تجارتی قافلوں کی نگرانی آپؓ کا قابل اعتماد اور معاملہ فہم غلام میسرہ کیا کرتا تھا۔ ابن ہشام اور دیگر روایات کے مطابق ایک روز آپؓ کے غلام میسرہ نے آپؓ سے حضرت محمد بن عبد اللہ (ﷺ) کی امانت و دیانت،شرافت اور عالی نسب ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس مرتبہ تجارتی قافلے کا نگراں اور شریک محمد بن عبد اللہ (ﷺ) کو بنا کر بھیجا جائے۔ اس دوران آپ ﷺ دیانت دار تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے۔آپﷺ صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے غلام میسرہ کے مشورے کو مانتے ہوئے اس سلسلے میں میسرہ کو حضورﷺسے بات چیت کرنے کے لیے کہا۔ حضورﷺاپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کے مشورے سے حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی اس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے اس غلام کے ہمراہ تجارتی قافلے کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ دو ماہ بعد جب تجارتی قافلہ واپس آیا تو میسرہ نے حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کو شام کے تجارتی قافلے اور سفر کے حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے حضورﷺکی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں کافی عرصے سے آپؓ کی خدمت میں ہوں، اس دوران ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ میرا واسطہ پڑا، لیکن محمد بن عبد اللہ (ﷺ) کی رفاقت میں جو کچھ میں نے دیکھا ،وہ عجیب تر ہے، میں نے محمد بن عبد اللہ (ﷺ) کو مشکلات میں بلند حوصلہ، مصائب میں پرسکون، ہجوم میں باوقار اور خرید و فروخت میں انتہائی ذہین و فہیم اور دور اندیش دیکھا ہے،وہ بردبار اور متحمل مزاج نوجوان ہیں ان کی خاموشی میں وقار اور گفتگو میں دل کشی ہے، ان کے منہ سے کوئی فضول بات نہیں نکلتی، لوگ اگر انہیں صادق و امین کہتے ہیں تو حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں ان کے موتی جیسے دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتی ہیں، پسینہ انتہائی خوشبودار ہے، وہ دن کی روشنی میں حسین اور رات کی روشنی میں حسین تر نظر آتے ہیں، ان کی سوچ بہت وسیع اور کردار میں تنہا و یکتا ہیں،وہ لاکھوں میں ایک اوراپنی مثال آپ ہیں۔ آپؓ تجارت ان کے سپرد کر دیں، بس کاروبار چمک اٹھے گا۔ ۔

کاروبار تجارت میں حضورﷺکی دیانت و امانت اور آپ ﷺ کی سچائی نے حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے اپنی عزیز ترین سہیلی نفیسہ کے ذریعے حضورﷺکو نکاح کا پیغام بھیجا، حضورﷺنے اپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کی اجازت و رضا مندی کے بعد نکاح کے اس پیغام کو قبول کیا۔ نکاح کے وقت حضورﷺکی عمر مبارک پچیس برس اور حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی عمر چالیس برس تھی، ابن سعد نے مہر کی رقم پانچ سو درہم بتائی ہے جب کہ ابن ہشام نے بیس اونٹنیوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتے ہوئے فرزند سعید عطا کیا،جس کا نام قاسمؓ رکھا گیا جب قاسمؓ تھوڑا چلنے لگے تو اس دوران اچانک بیمار ہو کر وفات پا گئے۔ قاسمؓ کی وفات کے اڑھائی سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو حضرت سیدہ زینبؓ جیسی سعادت مند بیٹی سے نوازا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت سیدہ رقیہؓ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓء آپ ﷺکے ہاں پیدا ہوئیں۔

روایت کے مطابق جب حضورﷺکی عمر مبارک 39 برس سے زائد ہو گئی تو حضورﷺمکہ مکرمہ سے اڑھائی میل دور غار حرا میں عبادت کے لیے تشریف لے جاتے۔ ابن ہشام کی ایک روایت کے مطابق حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ بھی کبھی کبھی آپ ﷺ کے ساتھ وہاں عبادت کے لیے جایا کرتی تھیں۔

غار حرا میں آپ ﷺ پر وحی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور آپ ﷺ نبوت و رسالت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرماتے ہیں۔ دوسری طرف کفار نے آپ ﷺ اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کرامؓ کو مختلف انداز میں ستانے اور تکلیفیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ شعب ابی طالب میں تین سال کا عرصہ مسلمانوں نے انتہائی دکھ، تکلیفوں، اذیتوں اور مصیبتوں میں گزارا۔ ان قیامت خیز لمحات اور آزمائش کی گھڑیوں میں ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے بھی بڑے صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا اور اس دوران ہر ممکن حضورﷺکی خدمت اور آرام کا خیال کیا، جب کہ اپنا تمام مال و دولت پہلے ہی اللہ کے راستے میں قربان کر چکی تھیں۔ شعب ابی طالب میں ہی آپؓ کی صحت تیزی سے گرنے لگی، ناقص خوراک اور تفکرات کے ہجوم کی وجہ سے آپؓ کی طبیعت خراب رہنے لگی، حضورﷺکے چچا ابو طالب کی وفات کے چند روز بعد ہی آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون اور رفیقہ حیات بن کر آپ ﷺ کی رفاقت میں پچیس برس گزارنے کے بعد حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ دس رمضان المبارک کو 65 برس کی عمر میں وفات پا گئیں، حضورﷺنے خود قبر میں اتر کر حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کو دفن فرمایا، ہمیشہ انہیں یاد کر کے آپﷺ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپﷺ چچا ابو طالب کی وفات کے بعد رفیقہ حیات حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی وفات کی وجہ سے غمگین رہنے لگے اور آپﷺ نے اس سال کو ’’عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا۔

تازہ ترین