• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ضیاءالمحسن طیب…برمنگھم
انسان خطا کا پتلا ہے اس سے گناہ کا احتمال رہتا ہے جب کبھی انسان سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ فوری طور پر توبہ کر لے تو یہ غلطی اور گناہ کا بہترین تدارک ہے۔ توبہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ پر شرمندہ ہو اور آئندہ سے اس گناہ سے اجتناب کا مکمل ارادہ ظاہر کرے جس کو شریعت کی اصطلاح میں توبۃً نصوحاً کہا جاتاہے، یعنی حقیقی توبہ۔ سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام سے بھی چوک ہوئی تو انہوں نے رو رو کر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی مانگی خدا نے ان کی معافی کو قبول کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔ اس کے مقابلہ میں شیطان سے بھی گناہ ہوا مگر اس نے گناہ پر کوئی شرمندگی کا اظہار نہ کیا بلکہ گناہ پر ڈٹ گیا تو خدا تعالیٰ نے اس کو قیامت تک راندہ درگاہ کردیا۔ صحابہ کرامؓ میں سے بھی کئی سے بشری کمزوری کی وجہ سے گناہ سرزد ہوئے مگر انہوں نے گناہ پر ایسی شرمندگی اور ایسی ندامت کا اظہار کیا کہ ان کی توبہ پر فرشتے بھی رشک کرنے لگے۔ صحابہ کرامؓ کی توبہ کے کئی واقعات کتابوں میں درج ہیں مگر حضرت ثعلبہؓ کی توبہ ایک منفرد توبہ ہے میں چاہتا ہوں کہ میرے قارئین بھی اس کو پڑھیں اور سبق حاصل کریں۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ ایک انصاری نوجوان نے اسلام قبول کیا جس کا نام ’’ثعلبہ‘‘ بن عبدالرحمٰن تھا۔ یہ نوجوان رسول اللہ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں کسی کام کے لئے بھیجا تو اس نے گزرتے ہوئے ایک انصاری کے گھر جھانک لیا تو اندر عورت غسل کر رہی تھی اب اس نوجوان کو خوف لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ میری اس حرکت کی رسول ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع ہو جائے لہٰذا خوف اور شرمندگی کے باعث وہ واپس بارگاہ رسالتؐ میں حاضر نہ ہوا اور وہاں سے بھاگ کر مدینہ کے پہاڑوں میں جاکر چھپ گیا جب اسے غائب ہوئے چالیس روز گزر گئے تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا اے محمدؐ آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور یہ کہ آپؐ کی امت کا ایک شخص ان پہاڑوں کی اوٹ میں چھپا مجھ سے پناہ کی درخواست کر رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ سے فرمایا کہ تم دونوں جائو اور اس نوجوان ثعلبہ کو تلاش کرکے میرے پاس لائو۔ یہ دونوں حضرات مدینہ منورہ سے ان پہاڑوں کی طرف تلاش میں نکلے تو راستہ میں مدینہ منورہ کے ذفافہ نامی ایک چرواہے سے ملاقات ہوگئی تو اس سے پوچھا کہ کیا تم نے ان پہاڑوں کے دامن میں ثعلبہ نامی کسی نوجوان کو تو نہیں دیکھا؟ اس نے کہا کہ شاید آپ لوگ جہنم کے ڈر سے بھاگے ہوئے نوجوان کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ان حضرات نے کہا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ جہنم سے بھاگا ہوا ہے؟ چرواہے نے کہا وہ اس لئے کہ جب آدھی رات گزرتی ہے تو وہ اپنی پیشانی پرہاتھ رکھے پہاڑوں کے دامن سے نمودار ہوکر اس طرح صدا لگاتا ہے ’’اے کاش تو میری روح کو بھی روحوں میں قبض کرلیتا اور جسم کو جسموں میں اور مجھے فیصلے کے دن کے لئے موخر نہ رکھتا‘‘۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ہاں ہم اسی نوجوان کی تلاش میں ہیں تو چرواہا انہیں پہاڑوں کی طرف لےکر چلا یہاں تک کہ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو وہ نوجوان حسب معمول اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھے نمودار ہوا اور وہی الفاظ دہرائے کہ اے کاش تو میری روح کو بھی روحوں میں قبض کرلیتا۔ اس دوران حضرت عمرؓ نے جھپٹ کر اسے گود میں اٹھا لیا تو اس نے پوچھا کی رسول اللہﷺ کو میرے گناہ کے بارے میں معلوم پڑ گیا ہے؟ فرمایا یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ کل شام آپؐﷺ نے تمہیں یاد کیا پھر مجھے اور سلمان کو تمہاری تلاش میں بھیج دیا کہ جائو ثعلبہ کو ڈھونڈ کر لائو اس نے کہا کہ پھر ایسا کرو مجھے اس وقت بارگاہ اقدس میں لے چلو جب آپؐ نماز پڑھ رہے ہوں، حضرت عمر اور سلمان فارسی اس کو ساتھ لے کر چلے اور پیچھے صف میں کھڑا کر دیا۔ ثعلبہ نے جب حالت نماز میں رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سنی تو بے ہوش ہوکر گرپڑا، سلام کے بعد جب رسول اللہؓ نے ان حضرات سے ثعلبہ کے بارے میں پوچھا تو عرض کیا گیا یا رسول اللہﷺ یہ رہا ثعلبہ۔ رسول اللہﷺ نے اسے ہلایا تو وہ ہوش میں آگیا آپؐ نے فرمایا تجھے کس چیز نے مجھ سے غائب کر دیا تھا؟ عرض کیا میرے گناہ نے یا رسول اللہﷺ، آپ ؐ نے اسے تسلی دی اور اسے اپنے گھر جانے کا حکم فرمایا۔ جس کے بعد یہ نوجوان آٹھ روز تک بیمار پڑا رہا۔ اطلاع ملنے پر حضرت سلمان فارسی بارگاہ رسالت ؐ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے یا رسول اللہﷺ احساس گناہ نے ثعلبہ کو بیمار کر ڈالا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چلو ابھی ثعلبہ کی عیادت کریں۔ آپ ﷺاس کے پاس تشریف لائے اور اس کا سر اپنی گود میں لے لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت تم کیا محسوس کرتے ہو؟ اس نے فرمایا یا رسول اللہﷺ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے جسم کے گوشت، میری کھال اور ہڈیوں کو چیونٹیاں سی کاٹ رہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کوئی خواہش ہو تو بتائو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے رب کی طرف سے مغفرت کا پروانہ اور بس۔ حضرت جبرئیل نے نزول فرمایا اور فرمایا اگر میرا یہ بندہ زمین کی مقدار بھر بھی گناہ کرتا تو میں اسی مقدار میں اپنی رحمت اور مغفرت کے ساتھ اس کا استقبال کرتا۔ جب رسول اللہﷺ نے ثعلبہ کو اللہ کا یہ پیغام دیا تو اس نے ایک چیخ کے ساتھ جان دے دی۔ رسول اللہ نے ثعلبہ کی تجہیز و تکفین کا حکم فرمایا اور نماز جنازہ کے بعد اسے لے کر نکلے ہم نے دیکھا کہ رسول ﷺ چلتے ہوئے انتہائی احتیاط کے ساتھ پورا پائوں زمین پر رکھنے کے بجائے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ تدفین کے بعد رسول اللہ ﷺ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ ؐ نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا نبی بنا کر بھیجا وجہ یہ تھی کہ ثعلبہ کے جنازے کے ساتھ چلنے کے لئے آسمان سے اس قدر فرشتے نازل ہوئے کہ زمین پر پائوں رکھنا مشکل تھا۔
تازہ ترین