• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خالد پرویز…برمنگھم
میرے اللہ کا کرم بڑھتا جارہا ہے۔ حرم کعبہ میں صبح کی نماز ادا کرکے اب ہم اپنی اگلی منزل میدان بدر اور مدینہ المنورہ کی جانب رواں دواں تھے۔ یہ ایک چمکتا ہوا روشن دن تھا وقت کے ساتھ ساتھ دھوپ میں تپش اور گرمی بڑھتی جارہی تھی۔ میں بڑے شوق و اشتیاق سے تیزی سے سڑک پر دوڑتی ہوئی گاڑی سے باہر دیکھتا جارہا تھا۔ راستہ بھر سڑک کے دونوں طرف خشک سنگلاخ پہاڑوں اور ریگستانوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ تھا۔ نجانے کیوں رہ رہ کر مجھے یہ خیال ستا رہا تھا کہ چودہ سو سال پہلے کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مکہ سے مدینہ المنورہ کو ہجرت کا سفر شاہ کونین کا ان راستوں پر کتنا مشکل اور دشوار ہوا ہوگا اورپھر ہجرت کے باوجود کفار مکہ نے مسلمانوں کو مدینہ میں بھی آرام و چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ حضور کی ہجرت کے تھوڑے ہی دن بعد کفار مکہ نے عبداللہ بن ابی جو مدینہ میں انصار کا رئیس تھا۔ خط لکھا کہ ’’تم نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔ ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر ڈالو یا مدینہ سے نکال دو۔ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کریں گے اورتمہیں گرفتار کرکے تمہاری عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے۔‘‘ چونکہ مدینہ میں اکثر انصار مسلمان ہو چکے تھے۔ اس لئے عبداللہ قریش کے حکم کی تعمیل نہ کرسکا۔ کفار مکہ نے صرف اسی خط پر اکتفا نہ کیا تھا۔ بلکہ وہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں اور پلاننگ بھی کرتے رہے اور مسلمانوں کو اپنی قوت سے مرغوب کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً جھتے بھیجنے شروع کردیئے جو مدینہ کی چراگاہوں سے مسلمانوں کے مویشی ہانک کر لے جاتے اوراگر کوئی مسلمان ہاتھ آجاتا تو اسے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے رسول کریمﷺ نے ضروری اقدامات کئے کفار مکہ کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے روکنے کے لئے ان کی تجارتی شاہراہ جو مدینہ کی طرف سے ہوکر یمن اور شام کی جانب جاتی تھی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ سب سے پہلے اس شاہراہ کے ارد گرد بسے ہوئے قبائل سے معاہدے کئے۔ ان کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد کفار مکہ کو مرعوب کرنے اور ان کو اپنی بالادستی کا احساس دلانے کے لئے گاہے بگاہے چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کردیئے۔ ہجرت کا دوسرا سال تھا جب ابو سفیان کی قیادت میں اہل مکہ کا ایک تجارتی کارواں بھاری ساز و سامان کے ساتھ شام سے مکہ کی طرف لوٹ رہا تھا۔ اس خوف سے کہ کہیں مسلمان اس کارواں کی اطلاع پاکر اس پر حملہ نہ کردیں۔ ابو سفیان نے مدد کے لئے مکہ قاصد دوڑا دیئے۔ اطلاع ملتے ہی ابو جہل نے لوگوں کو جنگ پر ابھارنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر میں ایک ہزار آزمودہ سپاہیوں کا لشکر تیار ہوگیا۔ جس میں چھ سو زرہ پوش اورسوسواروں کا دستہ بھی تھا۔ بڑی شان و شوکت سے لشکر مکہ سے نکلا۔ راستہ میں انہیں اطلاع ملی کہ قافلہ بغیر کسی رکاوٹ کے صحیح و سلامت نکل آیا ہے۔ لشکر میں شامل کچھ لوگوں نے مکہ واپس لوٹ جانے کی رائے دی۔ لیکن ابو جہل اور لشکر کی بھاری اکثریت نے مسلمانوں پر حملہ اور انہیں ختم کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اطلاع ملنے پر نبی کریم ﷺ تین سو تیرہ جانثاروں کی معیت میں مدینہ سے نکلے۔ کفار مکہ کا لشکر مسلمانوں کی اس مختصر جماعت سے تین گنا تھا۔ اسلحہ اور سازوسامان بھی مسلمانوں کے پاس انتہائی کم تھا۔ کفار مکہ میدان بدر میں پہلے پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے موزوں جگہ پر اپنے خیمے نصب کرلئے اور وہاں موجود پانی پر بھی قبضہ کرلیا۔ مسلمان پہنچے تو ریت کے ٹیلوں کے سوا اور کوئی ایسی جگہ نہ تھی کہ جہاں پڑائو ڈالیں۔ پانی کی بھی سخت قلت تھی۔ وضو کے لئے بھی پانی نہ تھا پھر یہ ہوا کہ اس رات اتنی موسلادھار بارش برسی کہ وادیاں لبریز ہوکر بہنے لگیں۔ مسلمانوں نے حوض بناکر پانی جمع کرلیا۔ اس طرح پانی کی قلت دور ہوگئی۔ بارش کے پانی سے ریت جم گئی۔ مسلمانوں کو چلنے پھرنے میں آسانی ہوگئی اور کفار مکہ کی طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہوگیا۔ دوسری نوازش رب کریم نے لشکر اسلام پر یہ فرمائی کہ ان پر نیند مسلط کردی۔ رات بھر خوب سوئے ۔ صبح اٹھے تو ہشاش بشاش اور تازہ دم تھے۔ تھکن اور افسردگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کفار کا رعب اور ہیبت دلوں سے نکل گئی تھی۔ بدر پہنچ کر نبی کریمﷺ کے ٹھہرنے کے لئے ایک سائبان بنا دیا گیا تھا۔ رات سب لوگ محو خواب تھے۔ لیکن رسول اللہﷺرات بھر جاگ کر سخت اضطراب کی حالت میں دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنے رب سے اس کی مدد اور نصرت مانگتے رہے اور فرماتے’’ یا اللہ تو نے مجھے سے جو وعدہ کیا ہے آج پورا کر۔ کبھی سجدے میں گرتے اور فرماتے کہ خدایا! اگر چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تمہاری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔ توحید کی قسمت ان تین سو تیرہ بے سرو سامان جانثاروں پر منحصر تھی۔ جو کفار کی ایک ہزار اورہرقسم کے لڑائی کے ہتھیاروں سے لیس فوج کے بالمقابل تھے۔ اس معرکہ ایثار و جانثاری کا سب سے بڑا حیرت انگیز منظر تھا۔ دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو جانثاروں کو نظرآیا۔ خود ان کے جگر کے ٹکڑے ان کی تلوار کےسامنے ہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ کے بیٹے(جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے) میدان جنگ میں بڑھے تو حضرت ابو بکر ؓ تلوار کھینچ کر نکلے۔ قریش مکہ کا سردار عتبہ میدان آیا تو حضرت حذیفہؓ (عتبہ کے فرزند) اس کے مقابل آگے بڑھے۔ حضرت عمر ؓ کی تلوار اپنے ماموں کے مقابلہ پر تھی۔ پھر چشم فلک نے یہ حیرت انگیز مناظر بھی دیکھے کہ ان تین سو تیرہ بے سرو سامان جانثاروں نے تائید ربانی سے اپنی جانثاری اور خون کے نذرانوں سے توحید کے پرچم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس شان سے بلند کیا کہ خود بھی قیامت تک زندہ جاوید ہوگئے۔ رب کریم نے سائبان کے نیچے شاہ کونین کے دونوں ہاتھ پھیلائے انتہائی بے قراری اور بے چینی کی حالت میں اپنے رب سے مددو نصرت کی دعائوں کو قبول فرمالیا تھا، کفارمکہ کو شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا۔ ان کے نامی گرامی سردار مارے گئے۔ تقریباً70 لوگ قتل ہوئے اور اتنے ہی گرفتار کرکے مدینہ لے جائے گئے۔ میدان بدر میں ہماری گاڑی اسی سائبان والی جگہ پر رکتی ہے اب وہاں مسجد تعمیر ہے۔ ہم بھی اس مقام پر اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریزہوگئے اور تھوڑی دیر بعد شہداء بدر کے مزاروں کے پاس کھڑے میں نے چاروں اور نظر دوڑائی اس سارے منظر اور فضائوں میں عجیب سی اپنائیت تھی میرے لئے کچھ بھی اجنبی نہ تھا، ہوتا بھی کیونکر، کہ بدر کے یہ مکیں اور یہ منظر سب کچھ میرا اپنا ہی تو تھا۔ اس کی فضائوں میں پھیلا ہوا سکوت اورتقدس میرے جسم، روح اور قلب میں اترنے لگا۔ اچانک زمین و مکاں کے فاصلے مٹتے چلے گئے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے صدیوں کی مسافتیں طہ کرتے کرتے کوئی تھکا مارا مسافر بالآخر اپنے اصل مسکن کو لوٹ آیا ہو۔
تازہ ترین